ملکی تاریخ کے بدترین فضائی حادثوں کا جائزہ

May 23, 2020

ملکی تاریخ کے بدترین فضائی حادثوںکا جائزہ

کراچی(نیوز ایجنسیاں)ملکی تاریخ کے کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پائے۔

جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے۔

اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔

اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا۔ 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکی ہیں۔ جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے۔

واضح رہے کہ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 کو پیش آیا۔ اس حادثے کا شکاوہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے ، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے۔

دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان میں گھر گیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ’’راوت‘‘ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔

نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔

اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے۔17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیال الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

ستمبر 1992 کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکراکر تباہ ہو گئی۔

عملے کے بارہ افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔پاک فضائیہ کا فوکر طیارہF27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے سبب پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔

حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی۔پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حادثے کے نتیجے میں وادی کے ایک اسکول کی عمارت میں آگ لگ گئی تھی.

چار سال قبل دسمبر 2016 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔

مذکورہ فضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے، تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔