برطانوی جیلیں اور مسلمان قیدی

May 24, 2020

1950کی دہائی کے آخری برسوں سے لے کر تقریباً 1965تک برطانیہ میں مقیم غیرملکی اور مقامی انگریزوں کا عام تاثر یہ تھا کہ پاکستانی انتہائی محنتی اور ایماندار کمیونٹی ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے مقیم بزنس مین منور حیات اور لندن کے علاقہ برینٹ کے سابق میئر احمد شہزاد جو ’’پاکستان ہیومن رائٹس سوسائٹی اوورسیز‘‘ کے چیئرمین بھی ہیں اور ایک طویل عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ پچاس پچپن سال پہلے وہ دور تھا جب پاکستانی و کشمیری کمیونٹی یہاں انتہائی پُرامن اور محنتی کمیونٹی شمار ہوتی تھی، ہماری کمیونٹی کے لوگ کبھی کسی غیرقانونی سرگرمیوں میں انوالو نہیں ہوتے تھے چنانچہ برطانیہ کے طول و عرض میں قائم جیلوں میں ہماری آبادی صفر تھی۔ یہ وہ دن تھے جب مسلمان زیادہ تر انڈیا اور پاکستان سے ہی برطانیہ آئے دیگر ملکوں کے مسلمان یہاں نہ ہونے کے برابر تھے، پاکستان سے آنے والے مسلمان زیادہ تر انتہائی کم پڑھے لکھے تھے جو سائن بورڈ تک نہیں پڑھ سکتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مندوں اور پڑھے لکھے لوگوں کی آمد بھی یہاں ہونے لگی۔ گزشتہ 60سال کے دوران آج صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد 30لاکھ ہے اور ان میں 11لاکھ پاکستانی و کشمیری مسلمان ہیں، آج اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان میں پاکستانی، بھارتی، کرد، بنگلا دیشی، عرب، ترک اور افریقہ کے مختلف ممالک کے مسلمان شامل ہیں۔ ان 30لاکھ مسلمانوں میں سے 50فیصد وہ ہیں جو برطانیہ سے باہر پیدا ہوئے، پورے ملک کے شہریوں میں ہر بیس افراد میں سے ایک مسلمان ہے، لندن کے ہی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں 50فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ انتہائی افسوسناک، شرمناک صورتحال اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی مسلمانوں کی وہ کمیونٹی جس کی برطانوی جیلوں میں تعداد زیرو تھی، آج ہوشربا حد تک تجاوز کر چکی ہے۔ آج یو کے کی ہائی سیکورٹی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی کل تعداد کا 44فیصد ہیں۔ یعنی 7کروڑ آبادی کے ملک میں دیگر تمام کمیونٹیز کے قیدی 56فیصد اور مسلمان قیدی 44فیصد!

برطانوی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعداد کے اعداد و شمار کا تجزیہ اگر پچھلے پندرہ سال سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے مثلاً 2002میں انگلینڈ اور ویلز میں قیدیوں کی تعداد 5502تھی تو 2003 میں یہ تعداد بڑھ کر 7246ہو گئی اور پھر اگلے دس سال میں قیدیوں کی تعداد 12225تک جا پہنچی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2012سے 2015کے دوران جن افراد کو دہشت گردی کے الزام میں جیل ہوئی ان 178افراد میں سے 104مسلمان تھے، برطانوی جیلوں میں کل 95000قیدی ہیں ان میں 12ہزار مسلمان، ہندو 447، یہودی 319، سکھ 732اور بدہسٹ 2ہزار ہیں۔ ان بارہ ہزار مسلمان قیدیوں میں 50کی عمریں 30سال سے بھی کم ہیں۔

برطانوی تھنک ٹینکس کی تشویش یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی یونہی بڑھتی رہی تو آنے والے 30سال میں مسلمانوں کی آبادی برطانیہ میں اڑھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ آج جب تیس لاکھ مسلمان ہیں اور 44فیصد جیلوں کی آبادی مسلمانوں کی ہے تو ان کی تعداد اڑھائی کروڑ ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟ برطانیہ کو یہ فکر اس لئے بھی زیادہ ہے کہ برطانیہ کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد مغربی یورپ کے پچاس ممالک سے زیادہ ہے، یو کے میں فرانس سے 20ہزار زیادہ اور جرمنی سے 30ہزار زیادہ قیدی جیلوں میں ہیں، لہٰذا برطانیہ صرف روس اور ترکی سے ہی پیچھے ہے حالانکہ برطانیہ خود کو یورپ بھر سے زیادہ محفوظ ملک سمجھتا ہے لیکن کیونکہ یہ ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے اور یورپ میں سب سے زیادہ کثیر المذہب اور کثیر الثقافتی ملک بھی ہے اس لئے جرائم کی شرح بھی اسی حساب سے زیادہ ہے جوبرطانیہ کے لئے باعث تشویش بھی بنی ہوئی ہے۔

حالیہ صورتحال پاکستانی اور دیگر مسلمان کمیونٹی کے لئے باعث تشویش ہونی چاہیے کہ برطانیہ وہ ملک ہے جس نے ہمیں پناہ دی ، امن دیا، ترقی کے مواقع، دولت کمانے کے ذرائع اور اپنی شہریت تک دی ہے لیکن آخر کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں جنہیں کبھی جرائم و کرپشن سے پاک سمجھا جاتا تھا برطانوی جیلوں میں جن کی آبادی صفر تھی، تو پھر ایسا کیا ہوا کہ آج جیلوں میں قیدیوں کی کل آبادی میں 44فیصد کی بڑی شرح ہماری کمیونٹی کی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل انتہا پسندی کی طرف مائل ہے، دہشت گردی و انتہائی پسندی کے علاوہ سیکس گرومنگ، چائلڈ سیکس، منشیات اسمگلنگ، عزت کے نام پر لڑکیوں کے قتل سمیت دھوکا دہی، زبردستی کی شادیاں یہ تمام جرائم کے پس پردہ ہمارا ہی نام کیوں ہوتا ہے ، کیا ہمارے واعظ، ہمارے مذہبی رہنما اور ہماری کمیونٹی کے والدین ہی تو اس صورتحال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ کیا ہماری دوعملی، دہرے معیارات اور دوغلی پالیسیاںہی تو ہماری نسلوں کی تباہی کے لئے واحد قصور وار نہیں ہیں۔ کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ نائن الیون سے پہلے یورپ اور برطانیہ بھر میں ہمارے بعض ان پڑھ مذہبی مبلغین ، یہاں مذہبی تعلیم کے پس پردہ ہمارے بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے، اسامہ بن لادن جیسے لوگ ان کے ہیروز تھے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ ہمارے علما انگریزی زبان سے نابلد تھے چنانچہ یہ لوگ برطانیہ میں پیدا ہونے والی ہماری نوجوان نسل کو دین اسلام پڑھا اور سمجھاہی نہیں سکے، انہوں نے اپنے آبائی ملکوں کے دیہات میں اندھا دھند تسلیم کی جانے والی وہی مذہبی تاویلات بچوں کو پڑھائیں اور اناڑیوں کی طرح سمجھائیں جو فرقہ پرستی، ذات پات اور دیگر کمیونٹی سے نفرت اور مخالفین سے جنگ و جدل کا سبب بن گئیں، نتیجہ آج برطانوی جیلوں میں قیدیوں کی 44فیصد مسلمان و پاکستانیوں کی آبادی کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)