پاکستان کی ایٹمی قوت معجزہ الٰہی ہے

May 27, 2020

تحریر: سید علی جیلانی۔۔سوئٹزر لینڈ
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات منفرد اور تاریخی ہوتے ہیں، ان لمحوں کی اہمیت کا مقابلہ کئی صدیاں مل کر نہیں کر سکتیں، یہ منفرد وقیمتی لمحات دراصل تاریخ کا وہ حساس موڑ ہوتے ھیں جہاں کوئی قوم اپنے عزت و وقار اور غرور و تمکنت یا ذلت و رسوائی اور غلامی و محکومی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتی ہے اور بہادر لوگ ایسے تاریخی فیصلے کرتے ہیں جو قومی زندگی کی بقاء ، سلامتی واستحکام اور تحفظ کے لئے لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ مئی 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے عالمی،خصوصاً برصغیر کے امن کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا۔ اس وقت کے ایک بھارتی وزیر ایل کے ایڈوانی نے پاکستانی قوم کو للکارتے ہوئے کہا کہ بھارت اب ایک ایٹمی قوت ہے اور پاکستانی قوم اب ہمارے سامنے سر جھکا کر چلنا سیکھے، جس سے واضح طور پر پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ بھارت نے ایٹم بم اپنے دفاع کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ امن پسند پاکستانی قوم ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے بخوبی آشنا تھی،اس کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا اور وہ بار گاہ خدا وندی سے کسی معجزے کی ملتجی تھی۔ پھر معجزہ ہوہی گیا کہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار ایک نوجوان نے، جو اس وقت ہالینڈ کے ایک سائنسی ادارے سے منسلک تھے، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مراسلہ تحریر کیا کہ مَیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم، موثراور نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتا ہوں۔ یہ نوجوان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ہالینڈ جیسے خوش حال ملک کے سائنسی ادارے سے وابستگی کے باعث وہ زندگی کی تمام تر سہولتوں سے لطف اندوز ہورہے تھےلیکن انہوں نے وطن عزیز کے تحفظ اور سلامتی کے لئے سب کچھ قربان کردیا اور خود کو دفاع پاکستان کے لئے وقف کر دیا۔ ان کی ان قربانیوں میں ان کی بیگم جن کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور ان کی دو صاحبزادیوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان شبانہ روز پاکستان کو ایک ایٹمی قوت بنانے میں مصروف ہوگئے،اس مرحلے پر اٹامک انرجی کمیشن میں ان کے خلاف کچھ اندرونی سازشیں شروع ہوگئیں جن کا انہوں نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ذکر کیا تو انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو کہوٹہ میں ایک الگ ادارہ بنانے کو کہا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا۔اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر نے سودو زیاں سے بے نیاز ہوکر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے خواب اور اس کی تعبیر کو تکمیل تک پہنچانے والے بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح ؒ کے پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر ایٹمی قوت بنا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے1976ء میں ایٹم بم پر کام شروع کیا اور چھ سے سات سال کے مختصر عرصے میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ 1982ء میں بم تیار ہوگیا تھا جس کا کامیاب تجربہ 28مئی 1998ء میں کیا گیاجس سے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ افواج پاکستان کا مورال بھی بلند ہوا اور دنیا کے سات ایٹمی ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل ہوگیا اسے ہم ’’یوم تکبیر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ اگر22 سال پیچھے جاکر 28 مئی کے دن کو دیکھا جائے تو چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ گراؤنڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والی جگہ) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹالیا گیا تھا۔تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جاچکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کو، جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ ڈیزائن کی تھی، بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔ بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔ اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔ دل سہمے ہوئے ، دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا لیکن وہ تیس سیکنڈ باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔ یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔ جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اٹھے، آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔ پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے اپنی جبینیں سجدہ شکر بجالاتے ہوئے خاک بوس کردیں۔ اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جب پاکستان، دنیا کی بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جن نا مساعد اور مشکل حالات میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی جدوجہد، محنت اور کوشش کی، وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ یہ ان کا پاکستانی قوم پر احسان عظیم ہے کہ آج ہمارا بڑے سے بڑا دشمن بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا ”ہم ایک ہزار سال تک گھاس کھا لیں گے مگر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دکھائیں گے“۔پھر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسے سچ کر دکھایا اور پاکستان کو ناقابل شکست بنا دیا پاکستان اس وقت پوری دنیا کو کھٹک رہا ہے کیونکہ یہاں کے بسنے والے لوگ مسلمان ہیں ، ایک اﷲ کے ماننے والے ،دنیائے اسلام کی اس موقعے پر اگر کوئی قیادت کرسکتا ہے تو وہ پاکستان ہے،28مئی 1998 کوجب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو دنیا میں ہلچل مچ گئی کہ جو ملک سوئی نہیں بنا سکتا اس نے ایٹم بم کیسے بنا لیا پاکستانی ایک پُرعزم قوم ہے وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے اور آگے بڑھنے میں لگی رہتی ہے۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا وہ خواب جو ہندوستان کے مسلمانوں نے دیکھا تھا اُس کے حصول میں کوشاں ہے، تیسری دنیا کے مسائل و مصائب زدہ پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا یقینا معجزہ الٰہی ہے۔ کیونکہ افواج پاکستان اور سائنسدانوں کی شب وروز محنت و قربانیوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے والے ہی اس ملک و قوم کے مسائل و مصائب کی جڑ ہیں اور انہی استحصالیوں کے باعث قوم اتحاد کی قوت سے محروم ہے آج معاشی بد حالی ‘ بجلی ‘ پانی و گیس بحران‘ لاقانونیت ‘ عدم تحفظ اور عدم استحکام سے دوچار ہے اور ایٹمی قوت اسے بیرونی جارحیت کیخلاف نبرز آدما ہونے کی طاقت تو عطا کرتی ہے مگر اندرونی خلفشار سے نمٹنے کیلئے اتحاد ہی قوم کی اصل ضرورت ہے اس لئے ایٹمی قوت پر نازاں ہونے کی بجائے قوم کو اتحاد و اخوت کی لڑی میں پرونے کی کامیاب جدوجہد ہی پاکستان کے مستقبل کو محفوظ و خوشحال بناسکتی ہے۔