وہ لاہور کہیں کھو گیا

May 31, 2020

(گزشتہ سے پیوستہ)

وہ لاہور جو ہم نے اپنے بچپن اور جوانی میں دیکھا تھا اب اس کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ پرانے لاہوری جب آج کے لاہور کو دیکھتے ہیں تو وہ آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔ خیر بات آگے بڑھاتے ہیں۔ اگلے روز ہماری بات آغا شورش کاشمیری کے بیٹے آغا مشہود کاشمیری سے ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل مولانا ابو الکلام آزادؔ گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول میں کچھ عرصہ پڑھاتے رہے ہیں۔ کیا عظیم شخصیت تھی۔ سینٹرل ماڈل اسکول پورے پاکستان کا واحد اسکول تھا جہاں ہر طالب علم کو بجلی، لوہے اور لکڑی کا کام سکھایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں لاہور میں ڈی سی بجلی ہوتی تھی۔ آج کی نسل کو کیا پتا کہ ڈی سی بجلی کیا ہوتی ہے۔ اب تو سب کو اے سی بجلی کا پتا ہے۔ ڈی سی بجلی کا کرنٹ لگنے سے انسان کی موت واقع نہیں ہوتی تھی۔

اسکول میں بجلی کی وائرنگ، مرمت اور ماڈلز بنانے سکھائے جاتے تھے۔ بجلی کے استاد ماسٹر مقبول ماشاء اللہ حیات ہیں۔ وہ بڑی محنت سے بچوں کو بجلی کا مضمون پڑھاتے تھے، بیٹری سیلوں پر کام کرنا سکھاتے تھے جبکہ ماسٹر رشید اور غالباً ماسٹر حمید لکڑی اور لوہے کا کام سکھاتے تھے۔ مدت ہوئی یہ تینوں ورک شاپس بند کر دی گئیں۔ حالانکہ یہ ہنر سکھانے کی بہترین تربیت گاہ تھی۔ وہ سینٹرل ماڈل اسکول اپنی تمام اچھی روایات کھو چکا ہے۔ جس اسکول کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے آج اس کی بربادی کی مثالیں دیتے ہیں۔ یہ واحد اسکول تھا ایچی سن کالج کے بعد جہاں پر کلاس ششم سے ہاسٹل کی سہولت موجود تھی۔ اسی طرح کوئین میری کالج میں پہلی جماعت سے ماسٹرز کلاسز تک طالبات کو ہاسٹل کی سہولت حاصل ہے۔ یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ کوئین میری اسکول جو لڑکیوں کا ہے، کسی زمانے میں یہاں پر پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ اعتزاز احسن اور سردار ذوالفقار خان کھوسہ (سابق گورنر پنجاب) کوئین میری اسکول کے اولڈ اسٹوڈنٹس ہیں۔ یہ اسکول ایچی سن کالج میں داخلے کے لیے نرسری کا کام دیتا تھا۔ اس طرح گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں اور یہ اسکول کانوینٹ آف جیسز اینڈ میری اور سیکرڈ ہارٹ اسکول کے لئے بچیوں کی تیاری کراتا تھا۔ یہ سب خوبصورت روایات تھیں جو اب ختم ہو گئی ہیں۔ سینٹرل ماڈل اسکول میں سید احمد سعید کرمانی کی بیٹی، پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری ناصر کھوسہ کی اہلیہ اور جی این بٹ کی بیٹی بھی یہاں 1961-62ء میں زیر تعلیم رہی ہیں۔ کیا اسکول تھا، کیا زمانہ تھا۔ سب کچھ تو تباہ ہو گیا۔ سینٹرل ماڈل اسکول کو دو سابقہ ہیڈ ماسٹروں نے تباہ و برباد کردیا۔ اس اسکول میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ اپنے وقت کے کئی نامور سیاستدانوں اور دانشوروں کے بیٹے یہاں پڑھتے تھے مثلاً احمد سعید کرمانی کا بیٹا آصف کرمانی، آغا شورش کاشمیری کا بیٹا آغا مشہود کاشمیری، مولانا کوثر نیازی کا بیٹا فاروق نیازی، یاسین وٹو کا بیٹا بھی۔ سیاسی اختلافات کے باوجود ان کی اولادیں آپس میں کبھی نہیں لڑی تھیں۔

اسی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک سابق وائس چانسلر نے صرف اپنی وائس چانسلری کے لئے کالج کا نام تک تبدیل کر دیا۔ وہ جی سی جسے پوری دنیا گورنمنٹ کالج اور راوین کے نام سے جانتی ہے، کا نام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کر دیا گیا۔ اسی طرح لاہور کالج کا نام بھی تبدیل کر کے لاہور کالج یونیورسٹی کر دیا گیا۔ اللہ کے بندو! کبھی کسی یونیورسٹی میں بھی انٹرمیڈیٹ (ایف اے/ایف ایس سی) کی کلاسیں ہوتی ہیں؟ گورنمنٹ کالج کا نام تبدیل نہیں کرنا چاہئے تھا۔

اس کالج کے حوالے سے ایک تاریخی واقعہ یہ ہے کہ 1972ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پہلی مرتبہ ایف اے کی سطح پر پنجابی کی بطور دو سو نمبر کے اختیاری مضمون کلاس شروع کی گئی۔ ہم اس پہلی کلاس کے پہلے طالب علم تھے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ پنجابی ڈپارٹمنٹ انگریزی کے ہیڈ اور معروف پنجابی شاعر اور لکھاری پروفیسر جیلانی کامران مرحوم نے شروع کیا تھا۔ یہ کلاس جب بی اے میں پہنچی تو پہلی مرتبہ اس کلاس کے لئے معروف شاعر پروفیسر گلزار بخاری کی تقرری کی گئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ پنجابی مضمون کے پہلے باقاعدہ لیکچرار تھے۔ ماشاء اللہ حیات ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر عطا فرمائے (آمین) لیکن جی سی یو نے کبھی اپنے اس پہلے پنجابی کے استاد کو یاد نہیں کیا۔ اس کالج میں سوشل ورک کے پہلے لیکچرار پروفیسر سلیم بٹ تھے۔ جنہوں نے 1974ء میں یہ ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ ان کو بھی جی سی یو نے کبھی یاد نہیں کیا۔ حالانکہ ان دونوں اساتذہ کرام نے تاریخ رقم کی ہے۔ اگر یہ اساتذہ کہیں باہر ہوتے تو ہر سال ان کو یونیورسٹی میں بلایا جاتا۔ اسٹوڈنٹس سے ان کی ملاقاتیں کرائی جاتیں۔ افسوس اس لاہور کی ہر اچھی روایت کو ختم کرنے میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے جو لاہوری اور امرتسری نہیں تھے۔ قدیم لاہور کی روایات، ثقافت اور مزاج سے صرف پرانے لاہوری اور امرتسری ہی واقف تھے۔ امرتسر کے 80فیصد مسلمان لاہور آ کر آباد ہوئے تھے۔ ویسے بھی لاہور اور امرتسر صرف 40کلو میٹر کی دوری پر ہیں۔ گورنمنٹ کالج (اب جی سی یو) کسی زمانے میں اپنے قدیم اساتذہ کو بلایا کرتا تھا، ان کے ساتھ شامیں منائی جاتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں کبھی میوزک سوسائٹی، فلم سوسائٹی، بک بینک، پنجابی مجلس، مجلس علوم اسلامیہ، سول ڈیفنس کلب، پریس کلب، کالج گزٹ، ینگ اسٹوڈنٹس یونین، اسٹوڈنٹس یونینز اور اسپورٹس کے بے شمار کلب اور کئی دیگر ادبی، ثقافتی، اور علمی تقریبات ہوتی تھیں۔ آہستہ آہستہ سب کچھ تو ختم ہو گیا۔ معروف ای این ٹی سرجن پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ رانا کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج درس گاہ نہیں بلکہ درگاہ ہے۔ (جاری ہے)