جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کیلئےصدرِ مملکت کی اجازت درکار نہیں، فروغ نسیم

June 03, 2020


جسٹس فائز عیسی سے متعلق کیس میں حکومتی وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کیلئےصدرِ مملکت کی اجازت درکار نہیں تھی، وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے سماعت کی۔

کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کا پتا کیسے چلا، اسے اسپیلنگ تک نہیں آتی۔ کیا اسے غیب سے معلومات ملتی تهیں، درخواست پر بڑی تیزی سے کام شروع کردیا گیا، کیا وحید ڈوگر کے کوائف کا جائزہ لینا ضروری نہیں تھا؟

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران فورغ نسیم کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ کی جانب سے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا فورغ نسیم سے مکالمے کے دوران کہنا تھا کہ آپ منی ٹریل کی بات کرتے ہیں بظاہر یہ ٹیکس کی ادائیگی کا معاملہ ہے، اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، الزام ہے کہ لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی گئی، جو ظاہر کرنا چاہیے تھی۔

جس پر فروغ نسیم نے جواباً کہا کہ عدالت کی بات بالکل ٹھیک ہے، بلاشبہ قاضی خاندان امیر ہے لیکن ریکارڈ زرعی زمین پر زرعی ٹیکس ظاہر نہیں کرتا، قاضی فائز عیسیٰ کے بچوں اور اہلیہ نے بھی لندن کی پراپرٹی ظاہر نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014ء میں آمدن 9285 ظاہر کی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ 2011ء اور 2013ء میں بچوں کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، 2011ء اور 2013ء میں بچو ں کی تعلیم سے فراغت کے بعد کیسے مہنگی پراپرٹی خرید سکتے تھے۔

دوران سماعت جسٹس مقبول باقر کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ایف بی آر نے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کی؟ ایف بی آر حکام کارروائی نہ کرے تو کیا صدر قانونی کارروائی کو بائی پاس کر سکتے ہیں؟

جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے خوف کی وجہ سے ٹیکس کے معاملے پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی، ایف بی آرحکام کوخوف تھا جج کے خلاف کارروائی پر کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائےگا۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ وحید ڈوگر کی شکایت پر انکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی؟جسٹس اے آر یو نے شکایت پر انکوائری کا آغاز کیسے کر دیا ؟

جس پر فروغ نسیم کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت کے تمام سوالات کے جوابات میرے پاس ہیں، اے آر یو نے کیسے سارے معاملے کی انکوائری کی، عدالت کو سب بتاؤں گا، 1988ء کے بعد برطانیہ میں ہر پراپرٹی کا ریکارڈ اوپن ہے جبکہ اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔