جارج فلائیڈ کا بے رحمانہ قتل اور نسل پرستی

June 05, 2020

حال ہی میں امریکی ریاست منی اپپلس میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بے رحمانہ قتل کے بعد عوامی احتجاج امریکہ بھر میں پھیل گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ پولیس کے ہاتھوں تشدد سے کسی سیاہ فام کی پہلی ہلاکت ہے بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سارے سیاہ فام باشندے پولیس کے تشدد کے نتیجے میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں مگر اس تشدد کی چونکہ وڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوگئی اس لیے پورے امریکہ میں اس ظلم کے خلاف زبردست احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔ وڈیو میںجس طرح ایک سفید فام پولیس افسر کوجارج فلائیڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے کے ذریعے آٹھ منٹ سے زیادہ دم گھٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور جارج کا اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے دردناک مناظر نے امریکی سماج میں پچھلے دو سو سال سے جاری نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کو جلا بخشی ہے۔

یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ امریکہ کی تاریخ اور نصابی کتب میں ایک عرصے تک افریقہ سے لائے ہوئے سیاہ فام غلاموں اور ان کی سرگرمیوں سے امریکی معاشرے کو نابلد رکھا گیا۔ سیاہ فاموں نے کپاس کے کھیتوں میں جو کام کیے، مکانات اور سڑکوں کی جو تعمیر کی اور پورے امریکہ میں جو ریلوے لائن بچھانے کا تاریخی کارنامہ سر انجام دیا اس کو امریکی تاریخ اور نصابی کتب دونوں سے الگ رکھا گیا۔ البتہ نصابی کتب میں سیاہ فام کو غلام رکھنے کا جواز ضرور مہیا کیا گیا اور بتایا گیا کہ جن لوگوں کا رنگ کالا ہو انہیں علیحدہ رکھنا ایک فطری عمل ہے، اسی بنا پر اسکولوں، چرچوں، بسوں اور کام کرنے والی جگہوں پر انہیں سفید فاموں سے جدا رکھا جاتا تھااور جب ایک سفید فام جان برائون نے اس استحصال کے خلاف مسلح تحریک چلائی تو اس کی پاداش میں نہ صرف اسے پھانسی پر چڑھا دیا گیا بلکہ اسے پاگل بھی قرار دیا گیا۔ آخرکار 1955ء سے 1970ء تک کی سول رائٹس کی تحریک کی بدولت کالوں کی Segregationتو ختم ہو گئی لیکن امریکی سماج میں کالوں کے خلاف نسلی امتیاز بدستور برقرار رہا۔ اس تحریک کی بدولت امریکی تاریخ اور نصاب میں غلاموں کے دور کی صحیح تصویر کشی کی جانے لگی اور یوں طالب علموں کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ امریکی ہیرو جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن بڑی تعداد میں غلام بھی رکھتے تھے اور یہ کہ جان برائون ایک ہوش مند اور انسانی حقوق کا علمبردار تھا۔

امریکہ میں نسلی امتیاز کو بڑھاوا دینے میں سرمایہ داری نظام کا بھی بہت بڑا کردار ہے اور جس میں خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پرائیوٹائزیشن کا عمل تیز ہوا اور بڑی بڑی کارپوریشنیں وجود میں آئیں۔ صدر ریگن نے آتے ہی پرائیویٹ جیلیں بنانے کا حکم صادر کیا اور 2015ء تک امریکہ میں ایک لاکھ تیس ہزار پرائیویٹ جیلیں بن گئیں۔ یوں امریکی پرائیویٹ جیل کارپوریشن منافع کمانے والی بڑی کارپوریشن بن گئی مثلاً امریکی جیل خانہ جات کی سب سے بڑی کوریکشن کارپوریشن فی کس تین ہزار تین سو چھپن ڈالر فی قیدی منافع کماتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اس منافع کا بہت بڑا حصہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے الیکشن میں خرچ کرتی ہے یوں جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے وہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2014ء تک ان جیلوں میں سیاہ فام اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 57فیصد تھی حالانکہ ان دونوں اقلیتوں کی آبادی امریکہ کی مجموعی آبادی کے 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں کافی ریسرچ ہو چکی ہے جس کے مطابق پرائیویٹ جیلیں نہ تو سستی ہیں اور نہ ہی محفوظ۔ اور نہ ہی یہ ریاست اور قیدیوں کے لیے مفید ہیں۔ یاد رہے کہ 1990ء تک امریکی جیلوں میں صرف پانچ لاکھ قیدی ہوا کرتے تھے جبکہ اب بائیس لاکھ لوگ جیلوں میں ہیں جن پر پچاسی بلین ڈالر کے ریاستی اخراجات اٹھ رہے ہیں۔ ان پرائیویٹ جیلوں کی کارپوریشنوں نے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کو الیکشنوں میں بے انتہا مدد کر کے ایسی قانون سازی کرلی ہے کہ جس کی وجہ سے جیلیں بھری رہتی ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق ستر فیصد لوگ بغیر کسی جرم کے جیلوں میں بند ہیں جن میں سے زیادہ تر غریب اور سیاہ فام ہیں جن کے پاس ضمانت کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کیس کے عدالتی فیصلہ میں بے گناہی کے ثابت ہونے تک جیل میں قید رہتے ہیں۔

امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام میں منشیات نوشی کی شرح تقریباً برابر ہے لیکن سیاہ فام، سفید فام کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ گرفتار کیے جاتے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق پولیس کے کسی بھی ناکے پر کالوں کی تلاشی گوروں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔ امریکہ میں 37فیصد سیاہ فام منشیات کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں جبکہ ان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 14فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گوروں کے مقابلے میں کالے سات گنا زیادہ جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ پچھلے چالیس سالوں میں سیاہ فام لوگوں میں بیروزگاری کی شرح سفید فام لوگوں کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ رہی۔

یہ وہ تمام عوامل ہیں جن سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس تحریک کا موجب صرف جارج فلائیڈکی موت نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ امریکی سماج میں سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی صلبی اور نسلی امتیاز کی وجہ سے وہ تمام ناانصافیاں ہیں جن کی وجہ سے وہاں سیاہ فام اپنے آپ کو امریکی سماج کا حصہ نہیں سمجھتے۔ فی الوقت جارج فلائیڈ کے اس قتل نے امریکی سماج میں نسلی تعصب پرستی کو مزید گہرا کر دیا ہے لیکن امریکی تاریخی ارتقا یہ ثابت کرتا ہے کہ پچھلے 250سالوں میں سماجی تحریکوں کی بدولت غلاموں، سیام فام لوگوں، مزدوروں اور عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضائع نہیں گئیں اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ جارج فلائیڈ کا قتل بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔