یورپی یونین میں آٹھ کروڑ مسلمانوں کا اضافہ

April 07, 2013

ترک فوج نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ گو سیاست میں اسلامی شدت پسندی قدرے کم ہوئی ہے لیکن ملک کے استحکام کے لئے وہ آج بھی خطرہ ہے، فوج کا کہنا ہے کہ ترکی میں سیکولر ازم کے بجائے اسلامی یا شرعیہ قانون کا نفاذ ترکی کو ہزاروں سال پیچھے کی طرف دھکیل دے گا اور اس سے سیاسی سماجی اور تجارتی حلقوں کیلئے اندرون و بیرون ملک مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کو ملنے والا کھربوں ڈالر کا پیکیج متاثر ہوسکتا ہے، ترکی کی فوج کے سربراہ نے ازمیر شہر کا دورہ کرتے ہوئے ترکی کے ایک سرکردہ اخبار حریت کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا اس انٹرویو کو ڈچ اخبارات نے اپنے تبصروں کے ساتھ سپرد قلم کیا ہے۔ فوج کے سربراہ نے کہا کہ ترکی میں اسلامی بنیاد پرستی کی لہر ایک بار پھر اٹھ سکتی ہے اور اس کا خطرہ بہر حال موجود ہے کہ اس لہر کا مکمل خاتمہ ابھی نہیں ہوا تاہم اس کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے اگر ترکی میں تمام بنیاد پرست پارٹیوں پر پابندی نہ لگائی گئی تو ترکی کے یورپین یونین کا رکن بننے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ میرے حساب سے ترکی کا اہم ترین مسئلہ بھی یہی ہے۔ بعض ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یورپین یونین اور عالمی تجارتی تنظیم میں مسلمانوں کی عدم شمولیت کی وجہ دراصل شراب اور سور
کے گوشت کا استعمال اور ان کی تجارت کی ممانعت ہے۔ ڈبلیو ٹی او (WTO) کے یورپی اور امریکی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے رجعت پسندانہ قوانین کو بدل ڈالیں ، تجارتی قواعد کو آسان کردیں تاکہ ”حلال حرام“ کی تخصیص ختم ہو جائے ترکی کے ساتھ دوہرا مسئلہ ہے ایک یورپی یونین کی مکمل ممبر شب اور دوسرا WTO میں شمولیت۔ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک مختلف حیلوں اور بہانوں سے ترقی پذیر ممالک کیلئے اپنی تجارتی منڈیاں کھولنا نہیں چاہتے اور دوسری طرف مسلم ممالک پر غیر اخلاقی اور بے جا شرائط لگا کر انہیں تجارت کی عالمگیریت، مکمل مارکیٹ اور فراخدلانہ تجارتی تصورت کے فوائد سے محروم کردینا چاہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکہ ترکی کو قرض کے مسئلہ یونان کے ساتھ فوری مستقل حل کیلئے زور دیتے رہتے ہیں۔ قبرص کو یونین کی ممبر شپ کا جب عندیہ دیا گیا تو ترکی نے یورپی یونین کے اس رویئے پر سخت احتجاج کیا اورکہا کہ قبرض ایک متنازع جزیرہ ہے اور اس سے متعلق تنازع کے حل کے بغیر اسے یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی نے سب سے پہلے 1963ء میں یورپی یونین میں شرکت کی درخواست کی تھی حالانکہ اس سے قبل 1960ء میں امریکہ نے ترکی کو بلا تاخیر نیٹو کی رکنیت دے دی گئی تھی کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم کے اثر کو یورپ میں پھیلنے سے روکنے کیلئے ترکی جیسے مسلمان ملک کی فوری شمولیت ضروری تھی۔ اس میں یورپی یونین کا نظریاتی و تجارتی مفاد پوشیدہ تھا آج اسی ترکی کو محض مذہبی تعصب کی بنا پر ترکی کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جارہا حالانکہ 1963ء کے بعد کئی ممالک کو یورپی یونین کی رکنیت دی گئی اس دوران ترکی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ ”تمہارا ہیومن رائٹس ریکارڈ اچھا نہیں، تمہارے ہاں جیلوں کی حالت ناگفتہ ہے، ترکی میں سزائے موت بدستور سایہ فگن ہے وغیرہ وغیرہ۔ ترکی نے ہر آن یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ یورپی یونین کے معیار کے عین مطابق ہے ، اس نے اپنے عمل ، اپنے نظریات اور اپنے طور طریقوں سے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک سیکولر غیر مذہبی ریاست ہے اور اس کی تہذیب و ثقافت وسطی ایشیا کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے زیادہ یورپ سے ملتی جلتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ترکی کو مذہبی تعصب کی وجہ سے گذشتہ 50 سال بعد بھی یورپی یونین کی رکنیت نہیں دی گئی اور اب بھی یورپی یونین میں صرف مشاہدے (OBSERVATION) کے درجہ میں ہے لیکن ترکی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اب امید بندھ چلی ہے کہ آنے والے برسوں کو ترکی کو مکمل رکنیت دے دی جائے لیکن یہ اتنا آسان مرحلہ نہیں ہوگا کہ مکمل رکن بننے کے امکانات کے پیش نظر یورپی ممالک بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت ترکی کو چاہئے وہ سیکولر نظام حکومت ہی کیوں نہ رکھتا ہو اس کی عیسائیوں کے غلبے والی یورپی یونین میں شمولیت روایتی یورپین اور عیسائیوں کیلئے ناقابل قبول بن رہی ہے۔ یورپی یونین میں پہلے ہی مسلمانوں کی آبادی قریباً 2 کروڑ سے زائد ہے اب اس میں مزید 6.7 کروڑ ترک مسلمانوں کا اضافہ یورپین یونین میں آبادی کی ہیت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔اگر ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرلیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد تین فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جائے گی، جس کے معاشی ، سیاسی، تجارتی، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے ڈرامائی اثرات مرتب ہوں گے یہی وجہ ہے کہ یورپی عوام آبادی کی ہیت میں اس قدر نمایاں تبدیلی اور اس شرح کی نسلی و مذہبی حقیقت کو قبول کرنے پر مائل نظرنہیں آتے۔ ترکی کی شمولیت کا مسئلہ مسلمانوں میں تیزی سے ابھرتے ہوئے مذہبی بنیاد پرستی کے رجحانات سے اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ یورپ کے سیاسی و سماجی قائدین اور حساس ایجنسیوں و تحقیقاتی اداروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ القاعدہ اور دوسری بنیاد پرست اور انتہا پسند اسلامی تنظیموں سے دہشت گردی کا خطرہ بہت سنگین ہوگیا ہے اور ان مسلم تنظیموں سے لاحق خطرات کو بے اثر کرنے کیلئے کئی برس لگ جائیں گے جس کا یورپ متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف ترکی رکنیت کی حمایت کرنے والی یورپی لابی یہ تاویل پیش کررہی ہے کہ ترکی ایک سیکولر مسلم مملکت ہے جس نے اپنے آپ کو یورپی یونین کی رکنیت غربت کے شکار اس ملک میں خوشحالی لائے گی اور وہاں کے غریب عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ہوگا اور بے روزگاری کی شرح میں زبردست کمی ہوگی۔ اس وقت ترکی میں بائیس 22 فیصد لوگ بے روزگار ہیں یورپی یونین کی رکنیت کے بعد ترکی کی خوشحالی دوسرے مسلم ممالک کیلئے بھی مثال بن جائے گی۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی خیالات میں شدت پسندی سے جو نیا چیلنج آج ہے اسے صرف اسی وقت روکا جاسکتا ہے جب ان ملکوں کے غریب عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ ان تمام ”مک مکا“ بیانات، خیالات اور نظریات کے باوجود ہنوز اسے کامیابی نہیں ملی کہ یورپی یونین کے کئی سرکردہ لیڈران ترکی کی رکنیت کے مخالف ہیں، جرمنی کے سرکردہ قدامت پسند قائد اسٹوٹیر جنہیں سابق چانسلر شروڈر کے مقابلے میں بہت ہی معمولی فرق سے شکست ہوئی تھی ترکی کی رکنیت کے بار ے میں ایک وارننگ دیتے ہوئے ایک نیا تنازع چھیڑ دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ترکی کی رکنیت یورپی یونین کو تباہ کردے گی۔ جرمن قائد کی یہ تقریر یا پالیسی سارے یورپ کے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اور دوسرے قدامت پسندوں کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرتی ہے۔ فرانس کے سابق صدر سرکوزی نے بھی جو یورپی یونین کے آئین کی تدوین کرنے والی کمیٹی کے سربراہ تھے نے کہا ہے کہ ترکی نہ تو نظریاتی طور پر مغربی ممالک میں شامل ہے اور نہ ہی روایتی طور پر ، ترکی کی رکنیت کے موضوع پر یورپ میں سیاسی ، نفسیاتی و ثقافتی اختلافات اس قدر جذباتی اور حساس ہوگئے ہیں کہ اس سے یونین کے رکن ممالک کے درمیان خلیج اور بھی وسیع ہوگئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتاترک کی قوم اس خلیج کو پاٹنے کی کیسے ، کب ، کہاں اور کیونکہ کوشش کرتی ہے