پاکستانی فارسی اور میگا آئل اسکینڈل

June 14, 2020

ایک زمانہ تھا، جب ہمارے خطے میں فارسی بولنے والے حکمران تھے۔ اس زمانے میں ایک کہاوت تھی کہ ’’فارسی گھوڑے چاڑھسی‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص فارسی بولے گا، اسے گھڑ سواری نصیب ہوگی۔ گھڑ سواری عزت اور بلند مرتبے کی علامت تھی۔ یعنی عزت، ترقی، دولت، شہرت اور ہیئت مقتدرہ کی عنایات ان لوگوں کو نصیب ہوں گی، جو حقیقی حکمرانوں کی زبان بولیں گے۔ ایسے لوگ پھر کچھ بھی کریں، ان پر ہمیشہ کے لیے ’’سات خون‘‘معاف ہوں گے۔ یہ کہاوت ہر عہد کے ہر طرح کے حالات پر صادق آتی ہے۔ اگرحقیقی حکمرانوں اور عام لوگوں کی زبان بظاہر ایک ہو تو بھی ان حکمرانوںکا بیانیہ الگ ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ ازخود ایک ’’زبان‘‘ ہوتا ہے۔ اس زبان کو آپ کہاوت کی مناسبت سے علامتی طور پر ’’فارسی‘‘بھی کہہ سکتے ہیں، جس کو پاکستان کی فارسی آتی ہے، وہی ترقی، دولت، مراتب اور اقتدار حاصل کرتا ہے۔ اگر اقتدار تک پہنچ کر کوئی عام لوگوں کی زبان بولنے لگے تو پھر وہ نہ صرف عتاب کا شکار ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی عبرت کا نشان بھی بن جاتا ہے۔ آپ کچھ کرتے رہیں اور فارسی بولتے رہیں، آپ کے گناہ اور جرائم کا فارسی زبان میں تذکرہ نہیں ہوگا بلکہ مجرم وہی ہوں گے، جو فارسی نہیں بولتے۔قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی فارسی کی گردان اور گرامر یہی رہی کہ سیاستدان کرپٹ ہیں اور انہوں نے ملک کو تباہ کیا۔ بعض سیاستدان بھی عتاب سے بچنے کے لیے صبح و شام یہی فارسی گردان کرتے رہے۔ آج بھی یہی گردان دولت، ترقی اور اقتدار کے ساتھ عتاب سے بچا ئوکا ورد ہے۔ آج کے حقیقی حکمرانوں کی فارسی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر کچھ سیاسی جماعتوں کے لوگ کرپٹ ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگوں کو اس فارسی پر عبور حاصل ہے۔ چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں، وہ مذکورہ بیانیے کی صداقت کو ثابت کرتی ہیں۔ چینی مافیا کے خلاف تحقیقات 1985ء سے ہوں گی۔ آٹا اسکینڈل میں بھی یہی ہوگا۔ ان حالیہ دو اسکینڈلز میں ملوث لوگوں کو فارسی گردان کرنے کا اتنا فائدہ ہوا ہے کہ انہیں اب یہ اعتماد ہوگیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے، انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ آٹا، چینی کے بعد پیٹرول کا بحران پیدا ہوگیا ہے، جس کا سارا ملبہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اگلے روز ایک ٹی وی چینل پر خبر چل رہی تھی کہ پیٹرول کا بحران ایک سپر میگا اسکینڈل ہے، جس کے مقابلے میں آٹے اور چینی کے اسکینڈلز معمولی ہیں۔ تفصیلات یہ ہیںکہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں پیٹرول اور خام تیل کی درآمد پر اس وقت پابندی عائد کر دی، جب عالمی منڈی میں ریفائنڈ اور خام تیل کی قیمتیں حالیہ تاریخ کی سب سے کم سطح پر تھیں۔ درآمد پر پابندی کا حکم نامہ شاید 25 مارچ 2020ء کو وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن)نے جاری کیا۔ پابندی کا اطلاق یکم اپریل سے غیر معینہ مدت تک کیا گیا تھا لیکن5 یا7 مئی کو درآمدات پر پابندی ختم کر دی گئی۔ یکم اپریل سے پابندی ختم ہونے تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمت12.14 ڈالرز فی بیرل سے 18.36 ڈالرز فی بیرل تھیں۔ اوسطاً 17ڈالرز فی بیرل رہیں۔7 مئی سے قیمتیں بڑھیں تو درآمدات پر پابندی ختم کر دی گئی۔ آج عالمی منڈی میں قیمت 40 ڈالرز فی بیرل ہے۔ اگر درآمدات پر پابندی عائد نہ ہوتی اور معمول کے مطابق درآمدات جاری رہتیں تو 17 ڈالرز فی بیرل والا تیل مزید 25دن چلتا۔ فی بیرل 23ڈالرز کی بچت ہوتی اور ہمارے پاس17ڈالرز فی بیرل والا 1.5 ملین ٹن تیل ہوتا۔ اس طرح ملک کو 300 ملین ڈالرز کی اب تک بچت ہوچکی ہوتی۔ موجودہ معاشی بحران میں اس زرمبادلہ سے ہمیں بہت ریلیف ملتا۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب ہمارے ملک میں تیل کی درآمدات پر پابندی عائد ہوئی، اسی عرصے میں بھارت نے اپنی معمول کی درآمدات سے 60لاکھ ٹن، بنگلا دیش نے 11لاکھ ٹن اور سری لنکا نے 5 لاکھ ٹن اضافی درآمدات کیں اور اربوں ڈالرز کے فائدے میں رہے۔ پاکستان کے پاس معمول کے درآمد کردہ تیل کے ساتھ ساتھ مزید 17 لاکھ ٹن تیل (بشمول پٹرول، ڈیزل اور خام تیل ) ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اگر پاکستان اسی عرصے میں بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا سمیت دیگر ممالک کی طرح کم از کم 1.5 ملین یعنی 15لاکھ ٹن تیل درآمد کر لیتا تو پاکستان کو 300ملین ڈالرز کا لازمی فائدہ ہوتا۔ اگر پاکستان اس عرصے میں ایک سال کے لیے اسی قیمت پر تیل کی خریداری کر لیتا تو پاکستان کو مزید 4ارب ڈالرز کا فائدہ ہوا۔ سمجھ نہیںآ رہی کہ وفاقی حکومت نے ایسا کیوںکیا۔

آج پٹرول کی قلت کا سارا ملبہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ حالانکہ پابندی والے حکم نامے میں ان کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی طلب کم ہو گئی ہے۔ تمام کمپنیاں اپنے درآمدی آرڈرز منسوخ کر دیں اور مقامی ریفائنریز سے تیل خریدیں جبکہ ریفائنریز سے کہا گیا کہ وہ بھی خام تیل کی درآمدات بند کر دیں تاکہ ملک میں تیل کی تلاش کا کام بہتر طریقے سے جاری رہے۔ اب پتا نہیں اتنے بڑے معاملے کی تحقیقات ہوگی یا نہیں۔ اگر ہوئی تو یقینا پاکستانی فارسی بولنے والوں کی بجائے ماضی میں تیل کے بحران پیدا کرنے کے جرم میں دوسرے لوگ گرفت میں آئیں گے۔ مگر ماضی کے کسی بھی حکمران پر یہ الزام شاید ثابت نہیں ہوگا کہ انہوں نے تیل کی قیمتیں کم ہونے پر تیل کی درآمد بند کر دی ہو۔