کورونا سے متاثرہ بجٹ\۔بہرحال متوازن تو ہے !

June 21, 2020

وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا۔جو موجودہ مشکل ترین حالات میں ایک متوازن بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے، ویسے تو عملاً یہ بجٹ کورونا سے متاثرہ بجٹ ہے جس نے بجٹ سے بہت پہلے پاکستان کی معیشت اور سماجی حالات میں طوفان پیدا کر رکھا ہے، کورونا کی وجہ سے ہماری قومی سطح پر پیدا شدہ مشکلات میں اضافہ کے ذمہ دار حکمران اور عوام دونوں قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، شاید پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہیں جو قانون کی حکمرانی ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی اس حوالے سے اپنے آپ کو ایک منظم قوم ثابت کرنے میں سنجیدہ ہیں۔دوسری طرف حکمرانوں کی کورونا کی وجہ سے پیدا شدہ مشکلات حل کرنے کے سلسلہ میں طرح طرح کی پھرتیاں بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔اس حوالے سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ پاکستان میں گورننس کا قیام بنانے کےلئے وسیع تر اصلاحات اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر ملک کو جمہوری نظام کے تسلسل کا حصہ برقرار رکھنے کے لئے کام کرنا ہو گا۔اگر بجٹ یا کسی اور مسئلہ پر حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی محاذ آرائی کے حوالے سے ’’سیزفائر‘‘ ہو سکتا ہےتو یہ مستقل طور پر کیوں نہیں ہو سکتا۔اب رہا سوال نئے مالی سال کے بجٹ کا !تو اسے موجودہ بدترین معاشی حالات میں متوازن بجٹ قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ یہ بجٹ کورونا کی مشکلات اور IMFکی گائیڈ لائن میں بنایا گیا ہے،پاکستان میں پہلے بھی بجٹ ایسے ہی بنائے جاتے رہے ہیں صرف PTIحکومت کی قسمت میں ’’کورونا‘‘ لکھا تھا۔جس کی وجہ سے قدرے بہتری کی طرف جاتی معاشی صورتحال پھر کئی مشکلات میں گھری نظر آ رہی ہے، نئے بجٹ میں اپوزیشن کا روایتی ردعمل قطعی طور پر حیران کن نہیں ہے البتہ تاجران کو CINCکے بغیر ایک لاکھ روپے کی خریداری پر ٹیکس کی چھوٹ ایک اچھا اقدام ہے، مگر پاکستان میں کبھی بھی تاجر یا کاروباری حضرات اس پر مطمئن نہیں ہوں گے ان کا اصل مسئلہ دستاویزی معیشت اور CINCکے ساتھ بزنس سے گریز کرنا ہے، اس سلسلہ میں بکرے کی ماں کب تک خیر منائےگی والی بات کے پس منظر میں سال دو سال کے بعد یہ مسئلہ بھی حل ہو ہی جائے گا۔بجٹ میں محدود وسائل کے باوجود صنعتی و تجارتی شعبہ کے لئے کچھ اقدامات ایسے ہیں اور کچھ ویسے ہیں، جس سے صنعتی و تجارتی طبقہ اور برآمدکنندگان مطمئن نظر نہیں آ رہے، سروسز سیکٹر میں کئی شعبوں پر ٹیکس کی چھوٹ اچھا اقدام قرار دیا جاسکتا ہے اس طرح ہوٹل انڈسٹری کے لئے ٹیکس کی شرح میں کمی سے مستقبل میں اس شعبہ کو فائدہ ہو گا۔ فی الحال تو کورونا کی وجہ سےسیاحت اور ہوٹل انڈسٹری بدترین حالات سے دوچار ہو چکی ہے، پراپرٹی سیکٹر کے لئے کئی اقدامات ایسے ہیں لیکن ابھی کچھ دنوں کے بعد فنانس بل کی اصل تفصیلات آنے کے بعد پتہ چلے گا کہ اسلام آباد کی بیوروکریسی نے بڑی خاموشی سے PTIحکومت کو بین الاقوامی اقتصادی ایجنڈے کے پس منظر میں ٹریپ کر لیا ہے۔اسلام آباد کی بیوروکریسی ہر دور میں ہر حکومت کے ساتھ ایسے ہی کرتی ہے لیکن PTIحکومت بیوروکریسی پر قابو کرنے میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آ رہی ہے۔اس لئے ہو سکتا ہے یہاں ان کو اپنے مقاصد اور مرضی کا بجٹ منظور کرانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔