جنید جمشید کے طیارہ حادثے کی تحقیقات بھی سامنے آگئیں

June 23, 2020

جنید جمشید کے طیارہ حادثے کی تحقیقات بھی سامنے آگئیں

2016 میں جنید جمشید کے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹحکومت کو پیش کردی گئی ہے۔

پی آئی اے کے طیارے حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹکی تفصیلات جیو نیوز نے حاصل کرلیں۔

رپورٹ کے مطابق آخری بار طیارے کی مینٹیننس کینیڈا میں ہوئی جہاں انجن کی’او ایس جی پن‘غلط طریقے سے فٹ کی گئی۔

رپورٹکے مطابق چترال سے اسلام آباد جانے والے طیارے کا ایک اہم ترین پرزہ، پرواز سے قبل ہی ٹوٹا ہو ا اور دوسرا خراب تھا جبکہ مقامی عملے کی مرمت بھی غیر معیاری تھی، جس کے باعث دورانِ پرواز طیارہ بیک وقت دو بڑی خرابیوں سے دوچار ہوا اور حویلیاں میں گر کر تباہ ہوگیا۔

اس حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید سمیت 48 مسافر جاں بحق ہوگئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق دسمبر 2016 میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے نے چترال سے اسلام آباد کیلئے اُڑان بھری تو انجن کی پاور ٹربائن اسٹیج ون بلیڈ یعنی (PT 1 ) بلیڈ ٹوٹ کر اپنی جگہ سے ہٹا، جس سے پاور ٹربائن شافٹ کی گردش متاثر ہوئی جبکہ OSG پن بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔

تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ PT1 بلیڈ اور OSG پن حادثے سے پہلے ،پشاور سے چترال آنے کے دوران ہی ٹوٹ چکے تھے مگر پھر طیارے کو اگلی پرواز کیلئے روانہ کردیا گیا ۔

امریکا میں OSG پن کے دھاتی تجزیے سے پتا چلا کہ کسی مینٹیننس کے دوران اسے غلط طور پر فٹ کیا گیا تھا، طیارے کی آخری مینٹینینس کینیڈا میں ہوئی تھی جہاں نہ صرف OSG کی موڈیفکیشن کی گئی بلکہ پارٹ نمبر بھی تبدیل کیا گیا۔

پرواز کے دوران شام 4 بجکر 5 منٹ اور 31 سیکنڈز پر خرابی شروع ہوئی اور یہ خرابی تھی انجن آئل میں ایندھن کی آلودگی شامل ہونا، جس نے ٹوٹی ہوئی OSG پن اور PT1 بلیڈ کے ساتھ مل کر پروپیلر کی رفتار کم کردی اور پروپیلر الیکٹرانک کنٹرول میں خرابی پیدا ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق 4 بجکر 10 منٹ اور 34 سیکنڈز پر انجن نمبر 1 فیل ہوگیا اور 4 بجکر 11 منٹ اور 53 سیکنڈز پر OSG نے کام کرنا بند کردیا، بدقسمت طیارے کے پائلٹس نے بالکل ایک نئی قسم کی خرابی دیکھی جو اس سے پہلے اے ٹی آر طیاروں میں کبھی نہیں دیکھی گئی اور 4 بجکر 20 منٹ پر طیارہ حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوگیا۔

رپورٹ کے مطابق انجن کے ڈیزائن میں تبدیلی مینوفیکچرر کی غلطی تھی، جسے درست کرنے کیلئے بہتر ڈیزائن تجویز کیا گیا مگر پی آئی اے طیارے کی خرابیاں دور کرنے کا عمل بروقت مکمل نہ کر سکی جبکہ سی اے اے نے بھی اس عمل کی درست نگرانی نہیں کی۔

عبوری رپورٹ میں حادثے کے ذمہ داروں کا حتمی تعین نہیں کیا گیا تاہم یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ حادثہ فنی خرابیوں، غلط مینٹیننس اور انسانی کوتاہیوں کے نتیجے میں پیش آیا۔

اس لحاظ سے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور طیارہ اور انجن ساز کمپنی ذمہ دار قرار پاتے ہیں ، حادثہ کی حتمی رپورٹ آنے میں ابھی مزید وقت لگے گا۔