دنیا کو زبان مل گئی

July 10, 2020

وہی ہوا جو پہلے ہی صاف نظر آرہا تھا۔ سوشل میڈیا نے دنیا کو زبان عطا کردی ہے۔ اب نہ کوئی قانون ہے نہ ممانعت، نہ پابندیاں ہیں اور نہ زباں بندی۔یہ رہی دنیا آپ کے حوالے، اس سے جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جس قدر چاہیں، بات کیجئے، اپنی بات، معاشرے کی بات ، سیاست کی اور نظریے کی اور سب سے بڑھ کر اپنے عقیدے کی بات کیجئے۔

مگر دھیان رہے، یہ ریڈیو اور سرکاری ٹیلی وژن کا زمانہ نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں دنیا کے کان بھرتے رہیں اور وہ چپ رہ کر آپ کی سنتی جائے۔ اس بار معاملہ دو طرفہ ہے۔

ہے یہ گنبد کی صدا، جیسی کہو ویسی سنو۔سوشل میڈیا کی دنیا کا تازہ کارنامہ یہ ہے کہ جس گھر میں بھی اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر ہے وہاں چھوٹاسا ٹیلی وژن چینل کھولا جاسکتا ہے جس پر آپ دنیا سے مکالمہ کرسکتے ہیں۔مگر خیال رہے کہ دنیا بھی پلٹ کر جواب دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

اس کارنامے میں بڑا دخل خدا جھوٹ نہ بلوائے، اس کم بخت کورونا وائرس کا بھی ہے۔میں تو اندر کا آدمی ہوں، بہت کچھ جانتا ہوں۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن کی ٹیکسیاں دیوانہ وار دوڑا کرتی تھیں او ر جن لوگوں کو کسی پروگرام میں شامل کرنا ہوتا تھا ان کو لے کر اور بھاگم بھاگ وقت پر نشر گاہ پہنچایا کرتی تھیں۔

کورونا کی وبا نازل ہوئی اور سماجی فاصلے پر سختی سے عمل شروع ہوا تو پروگرام میں شامل خواتین یا حضرات سے کہا جانے لگا کہ آپ اپنے گھر یا دفتر ہی میں ٹھہریں اور لیپ ٹاپ کے سامنے تشریف رکھیں، آپ سے وہیں اسی جگہ گفتگو ہوگی۔

آپ کونشر گاہ آنے کی ضرورت نہیں، آکر کسی سے ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں اور کسی کو گلے لگانے کا تو ذرا سا بھی امکان نہیں۔بس یہ سلسلہ چل نکلا ہے اور دنیا بھر کی نشر گاہیں اور اسٹوڈیو سمٹ کر آپ کے گھر یا دفتر کے کسی گوشے میں آگئے ہیں۔

اس کارروائی کے دوران یاروں کی ذہانت چمکنے لگی اورلوگوںکو خیال ہوا کہ کیوں نہ اپنے گھر میں ٹیلی وژن چینل کھول لیں اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خود ساختہ پروگرام نشر کریں۔

نہ اجازت نامہ درکار ، نہ پروانہء اطلاعات و نشریات کی شرط۔اب آپ ہیں اوردنیا آپ کے آگے۔ یہی ہوا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، ایک صاحب بتا رہے تھے کہ انہوںنے کراچی سے نام ور مصور صادقین کی زندگی پر پروگرام نشر کیا، اسی گھر کی نشر گاہ سے ،جسے پوری دنیا میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد نے دیکھا۔

اس سوشل میڈیا کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ہاتھ کے ہاتھ آپ کو بتاتا جاتا ہے کہ آپ کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد کتنی ہے، کتنے آپ کو آخر تک سنتے ہیں اور کتنے کسی وجہ سے اکتا کر بیچ ہی سے راہ بدل لیتے ہیں۔ان دس بارہ دنوںمیں کینیڈا امریکا، پاکستان اور بھارت سے میرے چار انٹرویو نشر ہوئے ہیں اور کئی ہونے والے ہیں۔

ذرا سوچئے زندگی کتنی آسان ہوگئی ہے۔ زوم نام کا کوئی سافٹ وئر نکلا تھا، پھر اسی قماش کے کئی دوسرے سافٹ وئر بن گئے ہیں جو آپ کی تصویر ساری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اورآپ کی گفتگو، آپ کی گائیکی اورآپ کے کارناموں کی روداد چار دانگ عالم میں نشر کرسکتے ہیں۔

ہم عمر رسیدہ لوگ اپنے تھکے ہارے ماحول میں بیٹھے اُسی بارہ تیرہ انچ کی قدامت سے بوجھل اسکرین پر ہی نظا رہ کیاکرتے ہیں لیکن ہمارے عہد کے بچے وہ ہتھیلی میں دبوچے اسمارٹ فون سے چپکے رہتے ہیں اور مطالعے سے لے کر رومانس تک سارے کام اسی ٹیلی فون سے چلاتے ہیں۔

یہ سلسلہ اتنا بڑھا ہے کہ یہاں برطانیہ میں کئی بڑے بڑے ٹی وی چینل نوجوانوں کے لئے الگ ہی پروگرام نشر کرنے لگے ہیں جواسمارٹ فون پر دیکھے جاتے ہیں اور اسی کوذہن میں رکھ کر ترتیب دئیے جاتے ہیں۔

بات نئی نسل کی چل نکلی تو کئی باتیں ذہن میں آئیں۔دو تین برس اُدھر مجھے ڈاک میں ایک بزرگ کا خط ملا جو انہوں نے لاہور سے لکھا تھا۔ پہلے تو یہ کہ وہ خط پاکر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔

سوچا کہ کیا ابھی کچھ لوگ ہیں جو خط لکھ کر ڈاک میں ڈالتے ہیں۔ بزرگ کا خط پاکر بہت خوشی ہوئی اور دل ہی دل میں طے کیا کہ میں بھی ای میل نہیں کروں گا بلکہ ہاتھ سے خط لکھ کر ڈاک خانے لے جاؤں گا۔

جب خط لکھا گیا تو ایک عجب سے احساس نے چٹکی لی اور مجھ سے کہا کہ کہاں مارے مارے پھرو گے، سامنے اسکینر رکھا ہے، اپنا خط اسکین کرو اور ایک بٹن دباؤ، خط لمحہ بھر میں لاہور پہنچ جائے گا۔

میں نے یہی کیا۔ ذرا دیر بعد لاہور سے بزرگ کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ آپ کا خط یہاں پہنچ گیا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کون سا بٹن دبا کر اسے کھولوں اور پڑھوں۔ اب بچوں کا انتظار کر رہاہوں، وہ کالج سے آئیں گے تو آپ کا خط کھولیں گے اور میں پڑھ پاؤں گا۔

تازہ واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان کا ایک ایسا ہی چینل میرا انٹرویو نشر کر رہا تھا۔ طے یہ ہوا یہ مقررہ وقت پر آپ کے گھر کا کمپیوٹر ہمارے مرکز کے کمپیوٹر سے جا ملے گا،اور گفتگو شروع ہوجائے گی۔

اب جب دونوں کناروں کے یک جا کرنے کا مرحلہ آیا تو سچ بات یہ ہے کہ میں کوشش کرکے تھک گیا اور میرے اعصاب شل ہوگئے،مجھ سے وہ کنکشن نہ ملا۔

اس پر مرکز میں بیٹھے میری سر توڑ کوشش کا تماشا دیکھنے والے صاحب نے فون پر مجھ سے کہا ’ سنئے، یہ کام آپ سے نہیں ہونے والا۔ گھر میں کوئی بچہ ہو تو اسے بلائیے‘۔

اب مرکز والے کو کون بتائے کہ گھر کے پرندے اپنے گھروندے بسانے کے لئے ہمارے گھونسلے کو خیر باد کہہ کر کبھی کے جا چکے ہیں۔