چین عالمی سُپر پاور کا منصب سنبھالنے کو تیار

July 19, 2020

کیا چین دنیا کے’’ سینٹر اسٹیج‘‘ پر آچُکا ہے؟ اِس سوال کا حتمی جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا، تاہم یہ امر واضح ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام اہم معاملات میں اب چین کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کرچُکا ہے، جب کہ اِس سے قبل اُس نے خود کو عالمی سیاست سے ایک خاص فاصلے پر رکھا ہوا تھا۔کورونا کے معاملے میں جس مُلک کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا رہا، وہ چین ہی ہے۔ عالمی تجارت میں سب سے اہم کردار اُسی کے پاس ہے۔چین کی مضبوط معیشت کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے۔ گزشتہ عشرے میں یہ عالمی تجارت کا اہم ترین موضوع رہی کہ چین دنیا کی نصف سے بھی زاید مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے۔’’چین، امریکا ٹریڈ وار‘‘ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے، جو گزشتہ دو برسوں میں دنیا بھر کے مُلکوں پر کسی نہ کسی طور پر ضرور اثر انداز ہوئی ۔

اُدھر چین کی فوجی قوّت کا تذکرہ بھی عام ہے۔ وہ سب سے بڑی ایٹمی قوّت ہے اور دنیا کی سب سے بڑی فوج بھی اُس کے پاس ہے۔ حالیہ جھڑپ میں اُس نے جس تیزی سے بھارتی فوجیوں کو ہلاک اور پسپا کیا، وہ کئی حلقوں کے لیے قطعاً غیرمتوقّع تھا۔ اپنے خودمختار علاقے، ہانگ کانگ سے متعلق بیجنگ نے سیکیوریٹی قوانین کا بِل پاس کرکے جس تیزی سے اُسے نافذ کیا، وہ بھی مغربی ممالک کے لیے تکلیف دہ اَمر ہے، کیوں کہ ابھی تک تائیوان اور ہانگ کانگ سے متعلق چین اپنی مشہور’’ ایک مُلک، دو نظام‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

جو لوگ چین کے صدر، شی جن پنگ کی پالیسیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں، شاید اُنھیں تو اِن اقدامات سے کوئی زیادہ حیرت نہ ہوئی ہو، کیوں کہ تین سال قبل کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وہ یہ اعلان کر چُکے ہیں کہ’’ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے اسٹیج پر چین اپنا مرکزی کردار ادا کرے گا۔‘‘ تو کیا اِس کا یہ مطلب لیا جائے کہ چین نے، جسے’’ وڈ بی سُپر پاور‘‘ کہا جاتا تھا، اب آگے بڑھ کر باقاعدہ طور پر سُپر پاور کا کردار اپنا لیا ہے۔اگر ایسا ہے، تو پھر دیکھنا ہوگا کہ اُس علاقے پر، جس میں ہم بھی شامل ہیں، اُس کے اِس نئے کردار سے کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟ نیز، ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ بڑی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کا کیا ردّعمل سامنے آتا ہے؟ اور اِس ضمن میں اب تک کیا کچھ ہو چُکا ہے؟ یہ ردّعمل کسی سرد جنگ کی شکل میں ہوگا یا پھر تصادم کی راہ اختیار کرے گا؟

چین ایک ارب، چالیس کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مُلک ہے۔ یہ دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً ساتواں حصّہ ہے۔ چالیس کروڑ چینی مِڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، جو دنیا کے کسی بھی مُلک کی آبادی سے، ماسوائے بھارت کے، زیادہ ہیں۔چین بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ مُلک ہے، جس میں ایک پارٹی نظام رائج ہے اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اِس پر حکومت کرتی ہے۔صدر شی جن پنگ نے اِس نظام کا دفاع کرتے ہوئے اُسے ترقّی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔

نئے چین میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چینی لیڈر نے اپنے نظام کو دوسرے مُلکوں میں فالو کرنے کی بات کی ہو یا اُس کا دیگر نظاموں سے موازنہ کیا ہو۔ شی جن پنگ ایک دھیمے مزاج کے کٹّر نیشنلسٹ ہیں۔وہ دنیا کی واحد سُپر پاور، امریکا کے تین صدور کے ادوار دیکھ چُکے ہیں۔ صدر بُش کے دورِ اقتدار میں شی جن پنگ چین کے نائب صدر تھے، تاہم اوباما کے دَور سے وہ صدر کے عُہدے پر فائز ہیں۔

اُنہوں نے کبھی اِس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ چین کو دنیا کا عظیم ترین مُلک بنانا چاہتے ہیں۔اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے اپنے پیش روؤں کی انتہائی کام یاب اقتصادی پالیسیز کو بڑی بڑی فتوحات سے ہم کنار کیا اور مُلک کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ چین دنیا کی دوسری طاقت وَر معیشت بن گیا۔نیز، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُنہوں نے اپنے مُلک کو بڑی خُوب صُورتی سے عالمی معیشت کے اُس مقام پر پہنچا دیا کہ اب دنیا کے لیے کوئی بڑا اقتصادی فیصلہ چین کی مرضی کے بغیر کرنا ممکن نہیں رہا۔شاید بیجنگ کے آگے بڑھنے کی رفتار میں مزید تیزی آتی، اگر امریکا میں بھی ایک قوم پرست لیڈر، ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں نہ آیا ہوتا۔ ٹرمپ شروع ہی سے چین کی تجارتی پالیسیز کے سخت ناقد رہے ہیں۔

اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد ہی چین سے تجارتی تعلق میں توازن پر رکھی۔ گو کہ اس پالیسی پر دنیا بھر میں تنقید ہوئی، لیکن اسے امریکی شہریوں کی واضح سپورٹ ملی۔یاد رہے، جب اوباما اقتدار سے رخصت ہوئے، تو اُس وقت چین، امریکا تجارت میں امریکی خسارہ پانچ سو بلین ڈالرز تک پہنچ چُکا تھا۔ ٹرمپ نے ڈپلومیسی کے مروّجہ اصول نظر انداز کرتے ہوئے تجارت کے معاملے میں انتہائی جارحانہ پالیسی اپناتے ہوئے چینی اشیاء پر تین سو بلین ڈالرز کے ٹیکس عاید کردیے۔

ظاہر ہے، شی جن پنگ نے براہِ راست معاشی ٹکرائو سے گریز کیا، کیوں کہ یہ چین کی معاشی پالیسی کے خلاف تھا، لیکن اُنھوں نے چین کی عظمت کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عمل جاری رکھا، جس کا فلیگ شپ اُن کا’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ ہے، جو یورپ، افریقا، ایشیاء پیسیفک تک پھیلا ہوا ہے۔ سی پیک بھی اسی منصوبے کا ایک اہم حصّہ ہے۔

کورونا وائرس چین کے شہر، ووہان سے شروع ہوا اور پھر باقی دنیا میں پھیلا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے جس طاقت اور تیزی سے اُسے لاک ڈائون کے ذریعے قابو کیا، وہ چینی ماڈل دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا اور پھر بیش تر ممالک نے اُس کی پیروی کی۔چین کی حکومت، ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے کورونا کو غیرمعمولی مہارت سے کنٹرول کیا، وگرنہ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں یہ وائرس کیا تباہی مچا سکتا تھا، اس کا تصوّر بھی وحشت ناک ہے۔ چین نے اپنے تجربات دنیا کے ساتھ شیئر کیے، تاہم مغربی ممالک نے اُس پر کورونا وائرس کے پھیلائو کے سلسلے میں بہت سے سوال اُٹھائے۔امریکا تو اُسے اِس وبا کے پھیلاؤ کا ذمّے دار قرار دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ وہ یہ الزام لگاتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت سے بھی نکل گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او چین کی مرضی پر چلتا ہے۔

واضح رہے، امریکا، عالمی ادارۂ صحت کے چالیس فی صد فنڈز مہیا کرتا ہے۔ یہ پیسے غریب اور پس ماندہ ممالک میں صحت کی سہولتوں کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔پاکستان بھی پولیو، ٹی بی اور ڈینگی کنٹرول پروگرامز میں اس فنڈ سے مدد حاصل کرتا ہے۔اب پیسوں کی یہ کمی کون پوری کرے گا؟ یقیناً سب کی نظریں چین ہی کی طرف ہوں گی۔امریکی طبّی مہارت کی سبقت ابھی تک مستند ہے اور دنیا کو اس سے بہت معاونت ملی، لہٰذا اس سے محرومی کوئی معمولی دھچکا نہیں۔ ماہرینِ صحت صُورتِ حال کی سنگینی سے بخوبی واقف ہیں اور پریشان بھی۔

چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوّت ہی نہیں، بلکہ دنیا کا پچاس فی صد سے زاید تیار مال بھی سپلائی کرتا ہے، جب کہ سستے مال میں تو اس کا کوئی ثانی ہی نہیں۔اس نے جس عزم، یک سوئی اور برق رفتاری سے اپنی اقتصادی قوّت کو اِس مقام تک پہنچایا، اس کی مثال شاید ہی تاریخ میں اس سے پہلے دیکھی گئی ہو۔ اندازہ لگائیں،1979 ء میں جب اس نے اقتصادی ترقّی کا سفر شروع کیا تھا، تو اس کی معیشت اسپین کے برابر یعنی 150 بلین ڈالرز تھی، جو آج 12.24ٹریلین ڈالرز پر کھڑی ہے۔

صرف33 سالوں میں اتنی ترقّی کسی اَن ہونی سے کم نہیں،خاص طور پر ایک ایسے مُلک کے لیے جو باقی دنیا سے کٹا ہوا ہو اور جس کی آبادی بھی زیادہ ہو، لیکن اس نے بڑی مہارت سے ان دونوں باتوں کو اپنے لیے کام یابی کے مواقع میں بدل دیا۔ یہ اُس کی پُرعزم،مخلص اور زیرک لیٖڈرشپ کا کمال ہے، جو بیانات کم دیتی اور کام زیادہ کرتی رہی۔ اپنے عوام کو خوش فہمیوں میں رکھنے کی بجائے اُنہیں محنت پر آمادہ کیا۔

سُہانے خواب دِکھانے کی بجائے، مشکلات سے نبرد آزما ہونا سِکھایا۔ وہ عالمی اور علاقائی جھگڑوں سے دُور رہا۔ چین کے رہنماؤں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ دنیا کی عظیم قوم ہیں، لیکن آج جب وہ ڈلیور کرچُکے ہیں، تو اُن کا کام چین کی بڑائی کا قدم قدم پر ثبوت دے رہا ہے۔ ظاہر ہے، اِن حالات میں اس سے مقابلہ کرنے والے بھی پیدا ہوئے۔ ایک طرف یورپی یونین تھی، جس میں برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر جرمنی جیسے مالیاتی جادوگر موجود تھے، لیکن بیس سال میں چین، یورپ کی ہر مارکیٹ میں موجود تھا۔دوسرا مدّمقابل مُلک جاپان تھا، جو اس کا پرانا دشمن اور علاقائی حریف ہونے کے ساتھ امریکا کا دستِ راست بھی تھا، لیکن جلد ہی چین نے اُسے بھی دوسرے سے تیسرے نمبر پر دھکیل دیا۔

اب صرف اس کا مقابلہ امریکا سے ہے۔ امریکا اس کے لیے آسانی سے جگہ بنادیتا، کیوں کہ عالمی اقتصادی بحران نے اُسے بُری طرح لپیٹ میں لے لیا تھا، تاہم امریکا کی اکانومی نے اپنی روایتی لچک اور مزاحمت دِکھائی۔ صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سال کے اختتام تک امریکا دوبارہ سب سے تیز ترقّی کرنے والی اقتصادی قوّت بن گیا۔اُدھر صدر ٹرمپ نے حسبِ وعدہ چین سے تجارتی پنجہ آزمائی شروع کردی۔چینی لیڈرشپ نے مقابلے میں کئی اقدامات کیے، جیسے ٹیکس کے بدلے ٹیکس، تاہم اُس نے مذاکرات ہی کو بہتر جانا۔ امریکا میں اِن دنوں دو ایشوز بے حد اہم ہیں۔

ایک طرف کورونا کی وجہ سے معیشت میں اُکھاڑ پچھاڑ اور دوسری طرف صدارتی انتخابات، جس میں صدر ٹرمپ ایک مرتبہ پھر مضبوط امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔امریکی ،غیر معمولی حالات میں، جیسے کورونا سے پیدا ہوئے ، لیڈرشپ کے تسلسل کو برقرار رکھنا پسند کرتے ہیں۔غالباً اسی لیے چینی لیڈرشپ اقتصادی میدان میں’’ دیکھو اور انتظار کرو‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ویسے بھی صدر شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ تمام اختلافات کے باوجود ایک فون کال کے فاصلے پر رہتے ہیں۔

30 جون 1997 ء کو چین،برطانیہ کے ایک سو سالہ معاہدے کے اختتام پر برطانیہ نے ہانگ کانگ، چین کے حوالے کردیا تھا۔اس سے قبل وہ اس عرصے میں لندن کی نو آبادی تھا اور وہاں برطانوی گورنر جنرل حکومت کرتا تھا۔ سیاسی نظام جمہوری یعنی انتخابات اور ملٹی پارٹی سسٹم تھا۔اسی قسم کا نظام کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر دولتِ مشترکہ کے ممالک میں چل رہا ہے۔ہانگ کانگ جنوب مشرقی ایشیا کی ایک انتہائی اہم بندرگاہ ہے۔ اس نے غیر معمولی ترقّی کی اور’’ ایشین ٹائیگر‘‘ کہلایا۔چین نے اپنے اس حصّے کو واپس لینے کے بعد اسی سیاسی نظام کو برقرار رکھا، جسے چین کی’’ ایک مُلک، دونظام‘‘ کی مثالی پالیسی کہا جاتا ہے، لیکن گزشتہ سالوں میں ہانگ کانگ کے عوام میں جمہوریت کے حوالے سے بے چینی دیکھی گئی۔ 2019ء تو مظاہروں ہی میں گزرا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیجنگ نے تحمّل سے کام لیا اور املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود اس نے کسی غیرمعمولی طاقت کا استعمال نہیں کیا، لیکن مظاہرین کے مطالبات پھر بھی ختم نہ ہوئے۔ چین کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں کے پیچھے مغربی طاقتوں کا ہاتھ ہے، جو عوام کو آزادی کی تحریک کے لیے اُکساتے ہیں۔غالباً یہی وہ یقین تھا، جس کے بعد چینی پارلیمان سے وہ بِل پاس کروایا گیا، جسے’’ ہانگ کانگ کا سیکیورٹی بِل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بِل کے تحت اب بیجنگ جزیرے کے سیکیورٹی معاملات میں براہِ راست مداخلت کرسکتا ہے۔

یہ قانون علیٰحدگی کی تحریکوں، مُلک کو نقصان پہنچانے،دہشت گردی اور غیرمُلکی قوّتوں سے ساز باز کرنے جیسے سنگین جرائم کا احاطہ کرتا ہے۔ چین نے اس کے تحت ہانگ کانگ میں نیشنل سیکیورٹی کے لیے آفس بھی کھولا ہے، جو اب معاملات کی براہِ راست نگرانی کرے گا اور اسے چینی حکومت کنٹرول کرے گی، پہلے یہ معاملات ہانگ کانگ کی مقامی حکومت دیکھتی تھی۔امریکا اور مغربی ممالک نے اس بِل پر شدید ردّعمل کا اظہار کیا۔امریکا نے چینی بینکس پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دیں، جب کہ برطانیہ نے ہانگ کانگ کے شہریوں کو شہریت دینے کی بات کی ہے۔یورپی یونین اور جاپان کی طرف سے بھی چین پر تنقید کی گئی ، لیکن اِس وقت دنیا کورونا سے جنگ میں مصروف ہے، اِس لیے ردّ عمل اس قدر شدید نہیں، جس کی توقّع کی جا رہی تھی۔ہانگ کانگ اسٹاک ایکس چینج دنیا کے اہم ترین اسٹاک ایکس چینجز میں شامل ہے۔

امریکی اور مغربی کمپنیز اسے خیرباد کہہ رہی ہیں، تاہم چین کی بڑی کمپنیز نے اس میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے۔ بِل کے دوسرے روز انڈیکس میں 2.8فی صد کا اضافہ ہوا۔ لداخ پر چین، بھارت جھڑپ سے بھی حالات کے رُخ کا پتا چل رہا ہے کہ چین کی فوجی قوّت کس انداز میں بڑھی ہے۔ کوئی بھی طاقت اس سے ٹکر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی، لیکن ابھی تک اس کا دفاعی بجٹ امریکا کے بجٹ کا ساتواں حصّہ ہے۔امریکا سات ارب ڈالرز، جب کہ چین دفاع پر ایک ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے۔تاہم، چین اپنی دفاعی صنعت کو بڑی تیزی سے ترقّی دے رہا ہے۔

لداخ کی وادیٔ گلوان کو ہلکے سے ہلکے الفاظ میں چین کی واضح فتح کہا جائے گا، لیکن اس مرتبہ چین نے بھارت کو اس کے دفاعی، اقتصادی، مالیاتی اور سفارتی فوائد اُٹھانے سے روک دیا۔ بھارت اور چین کے درمیان ہر سطح پر رابطے مضبوط ہیں اور وہ دو طرفہ معاملات طے کرنے کا میکنزم رکھتے ہیں۔اِس لیے بھارت نے 1962 ء کی طرح واویلا کر کے عالمی ہم دردی اور امداد سمیٹنے کی بجائے چین سے براہِ راست مذاکرات کو ترجیح دی۔ نیز، چین کی سفارتی حیثیت اب عالمی سطح پر بہت مؤثر ہوچُکی ہے۔حکّام کے رابطوں نے دونوں ممالک کی فوج کو مناسب فاصلے پر کردیا ہے، تاہم ابھی تلخیاں کم ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔