لڑو یا کوچ کرو!

July 15, 2020

صحت مند بچے عموماً جب دو سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو پائوں پائوں چلنا شروع کر دیتے ہیں اور توتلی زبان سے چند الفاظ بولنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن جب اس عرصے کے دوران بچے میں یہ دونوں علامات ظاہر نہ ہوں تو والدین کی پریشانی بڑھنے لگتی ہے اور وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ بچے کو کسی سہارے یا ایسے کھلونے کی مدد سے قدم اُٹھانے کی عادت ڈالیں کہ وہ ایک دن خود سے اپنے قدموں پر چل سکے۔ فکر مندی کی ایسی حالت میں بڑے بزرگ، نانیاں، دادیاں طرح طرح کے مشورے اور ٹوٹکے آزماتی ہیں۔ اس حوالے سے جو پہلا فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ بچہ خوف کا شکار ہے اسے حوصلہ دیں۔ ماہرینِ نفسیات بھی یہی کہتے ہیں کہ خوف کی علامات جب آپ کے اعصاب پر سوار ہو جائیں تو ذہنی و جسمانی طور پر ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتیں لیکن اندر ہی اندر بڑی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔ خوف انسان کے اندر کا وہ گہرا احساس ہے جو آپ کے اعصابی نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے یہ احساس آپ کی پیدائشی جبلت کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ آپ کس ماحول میں پلے بڑھے، جوانی میں آپ کا مزاج کیا تھا؟ بڑھاپا ان دونوں شکلوں کا اصل آئینہ ہوتا ہے کہ بچپن سے جوانی تک جو بویا وہ بڑھاپے میں کاٹنا پڑتا ہے۔ یہ لاڈ پیار اکلوتے بچے کی نفسیات کو بُری طرح متاثر کرتا ہے اور بعض صورتوں میں ایسا بچہ جوانی سے بڑھاپے تک اندرونی خوف کو چھپانے کے لئے خودسری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے وجود میں خوف کی ایسی بےشمار علامات پاتے ہیں جو اس وقت شدت سے ظاہر ہوتی ہیں جب ہم کسی بڑے امتحان سے گزرتے ہیں۔ اگر ہم مضبوط اعصاب، قوتِ ارادی، مستقل مزاجی کے مالک ہیں اور زندگی کے تلخ تجربات سے گزرے ہیں تو یہی خوف بعض مواقع پر آپ کی طاقت بھی بن جاتا ہے۔ یہ خوف ہمیں درپیش خطرے سے بروقت آگاہ رکھتا ہے، اس سے بچنے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے اور اس خوف کو قدرت کی طرف سے ایک انتباہ سمجھیے اور اپنی ہمت، حوصلہ، دانش سے اس پر قابو پانے کی کوشش کیجئے ورنہ یہی خوف آپ پر حاوی ہو جائے گا۔ یہ وہ قدرتی اشارے ہوتے ہیں جس سے آپ کا اعصابی نظام فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے اس کے اثرات آپ کے دل کی دھڑکنیں تیز کرنے، سانس لینے میں دشواری، بلڈ پریشر بڑھانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ آپ کو ٹھنڈے پسینے بھی آنے لگتے ہیں۔ اس خوف سے پیدا ہونے والے ڈپریشن سے کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ بھی اٹھنے لگتے ہیں۔ سر درد، ٹانگوں میں کھنچائو، ہاتھوں میں رعشہ جیسی بیماریاں بھی آپ کو گھیر لیتی ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کا ذہنی و اعصابی نظام یہ اشارے دے رہا ہوتا ہے کہ اس خوف پر جلد سے جلد قابو پائو (لڑو یا کوچ کرو) کی کیفیت اسے ہی کہتے ہیں کہ اگر مرض کا فوری علاج نہ کیا تو مریض خطرے میں ہے۔ خوف کے مرض سے اس وقت تک لڑنا پڑتا ہے جب تک کہ آپ کا دماغ ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا سگنل نہ دے دے۔ خانِ اعظم کی بحرانی سرکار کا اگر ماہرینِ نفسیات تجزیہ کریں تو شاید اس مرض کی تشخیص ہو جس کا شکار مریض ہر وقت اس احساس میں مبتلا ہے کہ وہ بڑا بہادر اور دبنگ ہے۔ ساری دنیا اس کی ذہانت، سچائی، دیانت کو مانتی ہے۔ اس کے چاہنے والے اس پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ ایسا مریض اس زعم میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کا ہر فیصلہ درست اور اس کے تمام چاہنے والوں کے پاس کوئی چوائس نہیں لیکن بحرانی سرکار کا نفسیاتی ٹیسٹ کرایا جائے تو رپورٹ پازیٹو آئے گی کہ مریض ’’خوفوفوبیا، مالوخولیا‘‘ کا شکار ہے اور اس کے جسم و ذہن کے اردگرد کچھ ایسے جرثومے پائے جاتے ہیں جو اسے خوف میں مبتلا کئے جارہے ہیں اوراس طرح مال بھی بنا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں خوف ایک نئی بیماری کو جنم دیتا ہے جسے شکوک وشبہات کہتے ہیں۔ اس بیماری سے ایسی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جن کا علاج تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت ایسی ہی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو چکی ہے جہاں حکومت کی پوری ٹیم ہی سخت دبائو میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب کپتان کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ اس بداعتمادی نے اسے ایسا گھیرا ہے کہ اس نےاپنے انتہائی قریبی ساتھیوں کا بھی اعتماد کھو دیا ہے۔ مبینہ غیر منتخب جاسوسی ٹیم نے قابلِ صلاحیت کھلاڑی کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ کپتان خان ان مبینہ غیر منتخب جاسوسوں کی رپورٹیں مستقل بنیادوں پر اپنی ڈائری میں نوٹ کرکے آئے دن ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیتے ہیں۔ اب یہ غلط فہمیاں بداعتمادی کی صورت میں وفاق سے خیبرپختونخوا اورپنجاب تک پھیل چکی ہیں جس کا سدباب بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ اپنے فلسفہ حیات کے مطابق لڑو یا کوچ کرو کی پالیسی اپنائو، جس کی بنا پر آپ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو عروج پر پہنچایا تھا۔