نااہلی کی وجہ نظریہ پاکستان تھی؟

April 15, 2013

انگریزی کی مہلک بیماری میں مبتلا ہمارے کنفیوژڈ براؤن صاحب نے میرا نام لیے بغیر مجھ پر حال ہی میں اپنا خوب غصہ نکالا۔ نجانے مجھے کیا کیا خطابات دے ڈالے۔ بیچارے کی کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا والی صورتحال ہے۔ نجانے کس حالت میں جناب اپنا فلسفہ جھاڑتے ہیں۔ عموماً ایسی مخلوق پر شام بھاری ہوتی ہے مگر ان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے ان کے لیے تو 24 گھنٹوں میں سے 16 گھنٹے بھاری ہوتے ہیں۔ اوپر سے انگریزی کی مہلک بیماری ایسی کہ بس اللہ ہی رحم کرے۔ طبیعت میں بے چینی ایسی کہ ہر چڑھتے سورج کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔ جب جمہوریت ہو تو جمہوریت کے ساتھ، جب مارشل لاء ہو تو مشرف جیسوں کے گن گانے شروع کر دیتے ہیں۔ مگر بُرے دن آنے پر اگر جمہوریت والوں کو چھوڑنے کی عادت ہے تو فوجی حکمرانوں کو بھی گرتا دیکھ کر پتھر مارنے والوں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک دن عدلیہ آزادی تحریک کا ساتھ دیتے ہیں اور لانگ مارچ کی تعریف کرتے ہیں تواگلے روز اس سب کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کر دیں گے۔ موقع ملتے ہی جیتنے والوں کی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے مگر جب سونامی کا خطرہ ہو گا تو سونامی کا حصہ بننے کے لیے بے چین ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ مجھ پر تازہ ”مہربانی“ کی وجہ وہی کہ میں نے ایاز امیر کی نااہلی پر اپنی رائے کیوں دی جو جناب کو بہت گراں گزری۔ ایاز امیر کو مبارک ہو کہ الیکشن ٹریبونل نے اُن کی نااہلی ختم کر دی اور اب وہ الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ عمومی طور پر میڈیا نے ایاز امیر پر ”مہربانی“ کرتے ہوے ریٹرننگ افسر کی طرف سے انہیں نااہل قرار دینے کی وجہ اُن کے نظریہ پاکستان سے متعلق خیالات کو گردانا مگر میں یہ جھوٹ نہ بول سکا۔ میں نے ٹی وی چینلز پر بولا اور اپنے اخبار میں یہ حقیقت لکھی کہ ن لیگ کے سابق ممبر قومی اسمبلی کی نااہلی کی وجہ اپنی تحریروں میں شراب پینے کا اعتراف کرنا تھا نہ کہ نظریہ پاکستان سے متعلق اُن کے نظریات۔ گویا نااہلی کی وجہ کُپی تھی نظریہ پاکستان نہیں۔ ایاز امیر نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی یہی تاثر دینے کی بات کی جیسے انہیں نظریہ پاکستان پر رائے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا ہو جو حقیقت کے بالکل برعکس اور سفید جھوٹ ہے۔ جس کالم کی بنیاد پر ریٹرننگ افسر نے ایاز امیر کو نااہل قرار دیا تھا اُ س کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:”کاؤس جی صاحب کے گھر میں کھانے کی دعوت کا ایک اپنا انداز تھا․․․ سوپ، گھر کی پکی روٹی ، کوئی بھی سالن اورمیٹھی ڈش بڑے سلیقے سے میز پر رکھے جاتے جبکہ کھانے کے ہر دور کے ساتھ گھنٹی بجا کر مودب خانساماں کو بلایا جاتا۔ پینے کے معاملے میں وہ بہت صاحب ِ ذوق تھے اور اُن کا بار ہمیشہ اچھے مشروبات سے بھرا رہتا مگر وہ عام پاکستانیوں کی طرح دکھاوا نہیں کرتے تھے۔ اُن کے ہاں وہ سلیقہ دیکھنے کو ملتا تھا جس سے ہم عام پاکستانی نابلد ہیں۔ اب یہ نہیں ہے کہ پابندی کی وجہ سے یہاں پینے والے تائب ہو گئے ہیں، ہو ا یہ ہے کہ ناؤ نوش کے آداب ختم ہو گئے ہیں اور ”مال “ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ عام پاکستانی اس کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ضیا دور میں جب میں نے کالم نویسی کا آغاز کیا تو مجھے کاؤس جی صاحب کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ اگر میں کبھی کراچی آؤں تو اُن سے ملاقات کروں۔ اس طرح ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہی ملاقاتوں کے دوران کاؤس جی صاحب ، جو اب اس دارِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں، نے مجھے ذوق ِ لطیف کے مشربی ذائقے سے پورے آداب کے ساتھ آشنا کیا۔“ریٹرننگ افسر نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اس کالم (جو یکم دسمبر 2012کو شائع ہوا) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایاز امیر نے اسلامی تعلیمات کی برخلاف آئین کے آرٹیکل 62 کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے امیدوار کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اس نااہلی کے خلاف ایاز امیر کے انتہائی قابل وکیل سلمان اکرم راجہ نے الیکشن ٹریبونل میں اپیل دائر کی اور ن لیگ کے رہنما کے حق میں فیصلہ لے لیا۔ راجہ صاحب سے جب بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ کالم میں یہ واضح طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا کہ لکھنے والے نے شراب پی۔ بہرحال ایاز امیر نے شراب پی یا نہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ اچھے وکیل ہارا ہوا کیس بھی جتوانے کا ہنر جانتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم آیا الیکشن ٹریبونل کو ایاز امیر کے کچھ اور کالمز بھی دکھائے گئے یا نہیں۔ مثلاً ایک کالم میں گزشتہ سال پاکستان کی طرف سے نیٹو سپلائی لائن کی نسبتاً پہلے سے زیادہ قیمت پربحالی کا حوالہ دیتے ہوے لکھا: ”Revision of terms and conditions: that's what my bootlegger does every two or three months“۔ اس جملہ میں واضح طور پر ایاز امیر لکھتے ہیں کہ اُن کو شراب فراہم کرنے والا ہر دو تین ماہ بعد شراب کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔ دی نیوز میں چھپنے والے اپنے ایک اور کالم بعنوان ” As another holiday approaches“ میں”holy water“ کی عدم دستیابی کا بھی ذکر کیا اور کچھ اس طرح لکھا (ترجمہ) ”روپے کی گرتی ہوئی قدر پر نظر رکھنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ دیکھا جائے اسکاچ کی بوتل کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے۔ مسٹر رحمان ملک کے 2008 کے انتخابات کے بعد داخلی امور سنبھالتے وقت اسکاچ کی بوتل کی قیمت اسلام آباد میں تقریباً 2600 روپے تھی ، اب یہ 4000 سے بھی زیادہ کی فروخت ہورہی ہے۔ اعلیٰ کوالٹی کے برانڈ(اور ان کی آڑ میں نقلی بھی) آٹھ سے نو ہزار تک کے فروخت ہورہے ہیں۔ اب پی پی پی خود کو ایک سیکولر پارٹی کہتی ہے مگر اس پردہ پوشی میں یہ فروخت عام پاکستانی کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ کیا سماجی انصاف اور مساوات کے یہی تقاضے ہیں ؟ستر کی دھائی میں تو پچاس روپے بھی بہت تھے کہ آپ اپنی مرضی کی خرید سکتے تھے، کھا پی سکتے تھے اور لاہور کے ثقافتی علاقوں، یہی کچھ شاہی قلعے کے آس پاس والے، میں لطف اندوز بھی ہو سکتے تھے۔ اگر بھٹو صاحب کے خلاف چلنے والی تحریک نہ ہوتی تو شاید وہ خوشیاں تادیر رہتیں، بلکہ ترقی کرتیں ۔“ اس سب کے باوجود ایاز امیر62-63 کی چھلنی سے نکل گئے۔یہاں مسئلہ ایاز امیر کا نہیں کہ اُن کے خلاف شراب پینے کا الزام ثابت کیوں نہ ہوا؟ ایاز امیر کو ذاتی طور پر جاننے والوں سے معذرت کے ساتھ، ہو سکتا ہو کہ ایاز امیر واقعی شراب نہ پیتے ہوں اور محض اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے لیے ایسا لکھتے ہوں۔ مگر کیا یہ بھی سچ نہیں کہ پاکستان میں کریمنل جسٹس سسٹم کی کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے کسے سزا ملتی ہے۔ یہاں تو لگتا ایسا ہے کہ پولیس اور کچہری مجرموں کا ساتھ دینے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ قابل وکیل ہو تو چور اچکے، شرابی، زانی، دہشت گرد، کرپٹ اور نوسرباز قانون کی پکڑ سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایسے میں آئین و قانون اور 62-63 کو بُرا بھلاکہنے سے مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔