سر رہ گزر

July 19, 2020

ذاتی گارڈز رکھنے کی کیا ضروت ؟

ریاست بلا امتیاز ہر شہری کی جان ومال کی محافظ ہوتی ہے اگر ہر پیسے والا محافظ رکھے گا تو ریاست در ریاست ہو گی، جو لوگ یوٹیلٹی بل ادا نہیں کر سکتے اور ان کو ریاست تحفظ دیتی ہے نہ وہ خود اس قابل ہیں بلکہ وہ احساس محرومی کی زیادہ گہری کھائی میں جا گریں گے، غیر مساویانہ معاشرے میں طبقات پیدا ہونگے، جرم بڑھے گا اور شاید انقلاب فرانس جیسی صورتحال پیدا ہو، پاکستان میں ذاتی محافظ فراہم کرنے کی سینکڑوں کمپنیاں ہیں، آخر ان کے ہونے کا کیا جواز ہے، ہر شخص کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کا فرض ہے حکومت اگر اس بارے کچھ نہیں کر سکتی تو آئین سے یہ پیرا ہٹا دے کہ ریاست ہی ہر پاکستانی کو تحفظ دینے کی ذمہ دار ہے ۔حکومت گارڈ مہیا کرنے و الی تمام کمپنیوں کو بند کرے، یا ہر خاندان کو گارڈ فراہم کرے، یہ ملک صرف اہل دولت کیلئے نہیں بنایا گیا تھا، تیسری دنیا کے ایک غریب ملک کو کم از کم مساویانہ طرز زندگی رائج کرنا چاہئے یہی ریاست کا تقاضا ہے ۔جب ایک امیر شخص کے آگے پیچھے بندوق بردار گارڈ دکھائی دیتے ہیں تو غریب عوام کے دل پر کیا گزرتی ہے اور وہ اشرافیہ سے کس قدر ڈرنے لگتے ہیں یہ تو ایک طرح سے محفوظ و ملفوف بدمعاشی ہے جس کی گزشتہ 72سال سے ہر حکومت نے اجازت دے رکھی ہے ہر امیر کے گھر پر بندوق بردار باوردی گارڈ کو دیکھ کر غریبوں کے بچے ،بڑے ،خواتین خوفزدہ ہوتے ہیں یہ ہراسانی ہے اسے بند کیا جائے ۔حکومت اپنی رٹ کو ڈھونڈ کر لائے تاکہ مساوی طور پر ہر امیر غریب خود کو محفوظ سمجھے، یہ گارڈ فراہم کرنے والی کمپنیاں کن کی ہیں یہ بھی سب جانتے ہیں صرف خود کو اور اپنوں کو تحفظ دینا حکومت برائے حکومت ہے ، مہذب ملکوںمیں سرکاری سیکورٹی اہلکار بھی اسلحہ اٹھا کر وردی پہن کر عام آبادیوں میں نہیں پھر سکتے کیا کبھی ان پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کا آڈٹ ہوا؟ کیا یہ پورا ٹیکس ادا کرتی ہیں، ایف بی آر، ایف آئی اے نوٹس لے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

مہنگائی امیروں کو ہنساتی غریبوں کو رلاتی

مائنس ون سے خوفزدہ سب سےپہلے اشیائے خورونوش کے نرخ ہی یکساں کر دیں، مہنگائی سے تو اب مفلسوں نے کورونا کی طرح سمجھوتہ کرلیا ہے کہ جب مہنگائی میں بھی یکسانیت نہیں لاسکتے تو آئے کیوں تھے ؟ نظام کو درست کردیں سارے خوف مٹ جائیں گے، وزراءسے کیوں نہیں کہا جاتا کہ ایسے اعلانات نہ کریں جو نافذ نہ کر سکیں، گندم تو زمین سے ایک جیسی اگتی ہے پھر آٹے کے ریٹ مختلف کیوں؟ یہ چکی اور فلور ملز کے آٹے کا فرق مٹا کر استحصال کے ایک فرضی ذریعے کو کیوں نہیں روکا جا سکتا، کم از کم آٹے میں تو مساوات لائی جائے کہ یہ بھی ناممکنات میں سے ہے ؟میڈیا بھی اب سیاسی فلسفوںسے نکلے بندہ مفلس کی ضروریات کیلئے موثر آواز بلند کرے ۔بجلی کی فراہمی میں اونچ نیچ اپنی جگہ اس کے نرخ تو روزانہ کی بنیادوں پر بڑھ رہے ہیں، یہ بل میں ای ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جی ایس ٹی ، نیلم جہلم ٹیکس، ایف سی سرچارج آخر کیا ہیں، کیا ان کا عدلیہ ازخود نوٹس لیکر اس غریب قوم کی جان نہیں چھڑا سکتی ؟ کیا بجلی چوروں کی چوری کا بوجھ بھی صارف پر ڈال دیا جاتا ہے، یہ جو بجلی، کمپنیوں کے حوالے کرکے چور دروازوں میں اضافہ کیا گیا انہیں ختم کرکے اسے براہ راست واپڈا کے حوالے کیا جائے جیسا کہ پہلے تھا ۔ صارفین سے بجلی چوری کی اطلاع کا تقاضا کرنے کی بجائے بجلی کی کمپنیوں کے اہلکاروں کی چھان بین کی جائے، کوئی بھی چوری ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتی، لیسکو نے عوامی علاقوں، نئی آبادیوں میں بجلی کی ترسیل کا منظر کبھی دیکھا ہے ؟ کیا محکمے کے پاس اتنے اونچے نرخ وصول کرنے کے باوجود کھمبے نہیں ؟ نئے ٹرانسفارمرز پڑے رہتے ہیں پرانوں سے اینٹیں باندھ کر ڈنگ ٹپائو سسٹم رائج ہے ۔ کوئی ہے جو بجلی کے نظام ہی کو درست کردے، عامر ٹائون میں کینال پوائنٹ اسکیم فیز ٹو کیلئے مختص ایک عدد نیا ٹرانسفارمر موجود ہے، پرانا چیخ رہا ہے کہ آبادی بڑھ گئی ہے میں تنہا بوجھ نہیں اٹھا سکتا علاقے کے مکین سب ڈویژن جاکر ٹرانسفارمر دیکھ آئے ہیں مگر اسے نصب نہیں کیا جا رہا شاید بیچنامقصود ہے ۔لائن مین کے پاس حفاظتی لباس نہیں ہوتا لاکھوں کیلئے ایک لائن مین بھلا کیا کرے۔ افسران اس کوہی فون کرتے ہیں فلاں جگہ پہنچو وہ کہاں کہاں پہنچے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ہمیں کلبھوشن سے پیار ہو گیا

بھارتی جاسوس کلبھوشن کو تیسری قونصلر رسائی، اب ملاقات میں پاکستان کا سیکورٹی گارڈ بھی موجود نہیں ہو گا۔سب کچھ جذبہ خیر سگالی کے تحت کیا گیا، 80لاکھ کشمیریوں کو مودی نے پنجرے میں بند کر رکھا ہے ہر روز کنٹرول لائن پر ہمارے جوان اور شہری شہید ہو رہے ہیں، اب مودی کا یار کس کو کہیں ؟ کیا ظلم کا جواب مدینہ کی ریاست میں یوں دیا جاتا تھا؟ یا یہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ بھی سیاسی ہے؟ تجارت بھی کھول دی آخر کس خوشی میں شاید مغرب میں ہمارے وزیر اعظم کو اس لئے بڑا لیڈر قرار دیا جا رہا ہے، کلبھوشن ہمارا قاتل ہے اور وہ اس کا اقرار کر چکا ہے آخر بھارت نوازی کا اس قدر فیاضانہ مظاہرہ کس کے کہنے پر کس کو خوش کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے؟ بھارت نے پاکستان کو مٹانے کی ٹھان رکھی ہے وہ کشمیری نسل کشی کرکے نام نہاد اٹوٹ انگ کے نظریئے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے، کہیں ہمیں کلبھوشن سے کسی بالی وڈ حسینہ جیسا پیار تو نہیں ہو گیا، کیوں عالمی عدالت انصاف میں گئے کلبھوشن کو بچانے کیلئے ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی جاسوس کو بچایا جا رہا ہے اور یہ کسی پاکستانی کو منظور نہیں، ہم افغانستان سے مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ وہ پاک افغان سرحد کےساتھ افغانستان کی سرزمین پر 19بھارتی قونصل خانے بند کیوں نہیں کراتا جو درپردہ ’’را‘‘ کے تربیتی مراکز ہیں، کیا ہم ثالثی امریکی فوجیوں کو بچانے اور بحفاظت گھر پہنچانے کیلئے کر رہے ہیں، کیا امریکہ نے کبھی مشکل گھڑی میں ہمیں پھوٹی کوڑی دی؟ یہی کام کوئی اور کرتا تو امریکا اسے سونے میں تول دیتا، آخر کیوں ہر حکومت کے جانے پر ہمارے دونوں ہاتھ خالی ہوتے ہیں، ہندو ذہنیت لاتوں کی بھوت ہے ہم جنگ نہیں چاہتے مگر کالی دیوی کے چرنوں میں لیٹنا بھی پسند نہیں کرتے، کلبھوشن تک رسائی وہ بھی دشمنوں کے مطابق یہ پاکستانی قوم ہر گز برداشت نہیں کرسکتی ،پاکستان پر آج بھی ہر پاکستانی جان لٹانے کو ہمہ وقت تیار ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ایک ہوں اظہار کی پاسبانی کیلئے

٭ہر روز یہ خبر کہ میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کیلئے احتجاج ہوا۔ اس کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔یہ ثبوت ہے کہ میڈیا تقسیم ہے، اگر پورا میڈیا ملکر احتجاج کرے ایک گھنٹے کیلئے اپنے اپنے چینلز بند کر دے، ایک روز کیلئے اخبار نہ چھاپے تو زوردار پیغام جائے گا، اس وقت میڈیا کا حکومت کی خاطر منتشر و منقسم ہونا اس کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں، سارا میڈیا یکجا ہو یہ اس کی بقا کا مسئلہ ہے کسی بڑے میڈیا ہائوس کے مالک اور ورکنگ جرنلسٹ کو پابند سلاسل رکھنا خود حکومت بلکہ پورے معاشرے کیلئے اچھا نہیں، ہماری میڈیا اسٹیک ہو لڈرز سے درخواست ہے کہ وہ باہمی اختلافات سے بالاتر کوئی اجتماعی پالیسی وضع کریں اور میر خلیل الرحمٰن جیسے عظیم صحافی کے بیٹے میر صحافت میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کو میڈیا کی رہائی سمجھ کر متحدہ کوشش کریں، ضرور وہ رہا ہونگے بلکہ اظہار کے پائوں کی بیڑیاں بھی کٹ جائیں گی۔