بہادر شیرو

July 26, 2020

نزہت وسیم

رمضان اور عید الفطر کی گہما گہمی ختم ہوتے ہی سب بچوں کو قربانی کی فکر ہوگئی۔ ہر وقت جانوروں کے قصے چھڑے رہتے، کھیل کا موقع ہوتا یا کھانے کا دستر خوان ہر بات کی تان بکروں ،بیلوں پر ٹوٹتی ۔

روز بڑے پاپا سے کہا جاتا کہ قربانی کے جانور لے آئیں لیکن وہ ہنس کر ٹال دیتے ۔ایک دن اچانک بڑے پاپا رمضان اور عیدالفطر کے فوراََ بعد ہی تین سفید بکرے لے آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ گرمی بہت ہے اور ڈیرے پر ان کی اچھی دیکھ بھال نہیں ہو رہی ،یہاں گھر میں انہیں رکھیں گے اور خوب کھلا پلا کر ان کی خدمت کریں گے ۔ بکرے نانو کے گھر رکھے گئے کیوں کہ وہاں کھلی جگہ تھی ۔

بکروں کے گھر آتے ہی گھر میں ہر طرف ہنگامہ مچ گیا، بچوں کا خوشی سے عجب حال تھا ۔ذیشان نے جلدی سے آگے بڑھ کر سب سے موٹے گول مٹول بڑے بڑے بالوں والےبکرے کی رسی پکڑ لی اور بولا ،’’یہ میرا ہے ۔ چھوٹے پاپا کی بیٹی فرح نے دوسرے کی رسی کو دبوچ لیا اور اعلان کردیا،’’ یہ میرا ہے‘‘ ۔ حسن نے تیسرے کی طرف دیکھا کیوں کہ اب وہی رہ گیا تھا نسبتا چھوٹا ،اس نے ایک ادا سے حسن کی طرف نگاہ کی ۔ تو اس نے دوڑکر اس کی رسی کو پکڑتے ہوئے بولا،’’ یہ میرا ہے، یہ میرا ہے‘‘ ۔

بابا نے بتایا کہ یہ بکرےگھر کے پلے ہوئے ہیں اورانہوں نے ان کے نام بھی رکھے ہوئے تھے ۔ذیشان والے کا نام شیرو تھا وہ سب کا لیڈر تھا۔ تینوں جدھر جاتے وہ سب سے آگے ہوتا بڑی شان سے اکڑ کر چلتا اور دونوں کو اپنے رعب میں رکھتا ۔

دوسرے والے کا نام ببلو تھا ۔ صحت میں وہ شیرو سے تھوڑا ہی کم تھا لیکن شرارت میں اس سے بڑھ کر تھا ۔ فرح نے جب اس کی رسی کو پکڑا تو ایک دم اس نے شوخی سے چھلانگ لگا کراسے ایک ہلکی سی ٹکر رسید کی۔حسن کا بکرا ،جس کا نام معصوم تھا اسم بامسمّی تھا ۔ معصوم شکل والا جسامت میں چھوٹا لیکن صحت میں ان سے موٹا تھا ۔ اس کی آنکھیں کالی تھیں۔ اس نے بھی حسن کو اپنا پکا دوست بنا لیا۔

وہ تینوں اپنے اپنے بکروں کو چارا کھلارہے تھے کہ اتنے میں بڑے پاپا آتے دکھائی دئیے وہ اپنے ساتھ ایک آدمی کو لائے تھے، جس نے مشین سے باری باری تینوںبکروں کے بال اتار دئیے ۔ اتنے لمبے لمبے بال جب جسم سے اترے تو معلوم ہوا کہ ان کی ساری صحت اور موٹاپا بالوں کی وجہ سے تھا ۔ ابھی سب انہیں دیکھ رہے تھے کہ اچانک شیرو کی ٹانگیں کانپیں اور وہ نیچے گر گیا ۔ پاپا نے جلدی سے اسے پکڑکر بٹھایا ، پانی پلایا اور بھیا کو جانوروں کا ڈاکٹر لینے بھیج دیا ۔ کچھ دیر میں اس کی طبیعت بہتر ہوگئی ۔ پاپا نے کہا دراصل شیرو کی ساری پہلوانی بالوںکے ساتھ اتر گئی اور وہ صدمے سے گر گیا ۔سب ہنسنے لگے لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی وہ اب بھی اپنی پتلی پتلی ٹانگوں سے دونوں کی لیڈری کر رہا تھا اور دونوں اس کے پیچھے پیچھے تھے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے اسکول تو بند ہی تھے بچے تھوڑی بہت پڑھائی کرتے اورسارا دن بکروںکی ناز برداری میں لگے رہتےجو اچھی خوراک اور دیکھ بھال کی وجہ سے خوب موٹے ہوچکے تھے اور سب سے مانوس بھی ۔

جوں جوں عید قریب آرہی تھی تینوں بچے چُپ چپ رہنے لگے ۔ آخر عید کا دن آپہنچا ۔ معمول کے مطابق رات کو ہی ڈیرے سے پانچ چھ آدمی اپنے ساتھ ایک بڑا بیل لے کر آگئے ۔ پاپا چھریاں اورٹوکے وغیرہ دھار لگوا کر تیز کروا چکے تھے۔

عید کی صبح ذیشان اور حسن بھی سب گھروالوں کے ساتھ عید گاہ میں نماز ادا کرنے گئے ۔ واپس آتے ہی جانوروں کو ذبح کرنے کی تیاری شروع ہوگئی۔بکرے لان میں دوسری طرف بندھے ہوئے تھے سب سے پہلےبیل ذبح کیا گیااب بکروں کی باری تھی جوایک طرف کھڑے چپکے چپکے ادھر دیکھ رہے تھے، اگرچہ پاپا نے پردے کے خیال سے ان کے سامنے ایک چارپائی کھڑی کروا دی تھی ۔ پاپا نے بھیا کو آواز دی ،’’بکرے لے آؤ ‘‘۔ بھیا جب ان کے پاس پہنچے تو شیرو فورا آگے بڑھا بھیا نے اس کی رسی کھولی شیرو گردن اٹھائے سینہ تانے بھیا کے پیچھے بڑی شان سے اکڑ کر چل رہا تھا ۔

بچے حیران ہوکر آنسو بھری چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ نانو نے کھڑکی سے یہ منظر دیکھا تو شیرو کی بہادری پر انہیں بے ساختہ پیار آگیا ۔ اُن کے دل اے دعا نکلی کہ کاش ہم مسلمان بھی اپنے رب کے ہر حکم پر اسی جذبے سے عمل کرنے والے بن جائیں ۔