بیلٹ بمقابلہ بلٹ

April 18, 2013

ملک انتخابی عمل سے گزر رہا ہے اور انتخابی مہم دہشت گردی کی زد پر ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے تین سیاسی جماعتوں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں، ان پر حملے کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود جمہوری نظام کو کفار کا نظام قرار دے چکے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر کفار کے نظا م میں شریک تمام جماعتوں کو ہدف بنانے کے بجائے تحریک طالبان نے صرف تین جماعتوں پر حملے کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کا جواب تو دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دینا ہوگا جن میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو برسر اقتدار رہیں اور وہ سیاسی جماعت بھی شامل ہے جس کے ٹیلی ویژن اشتہار کا آغاز سجدے سے ہورہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ سجدہ کرنے والا کون ہے اور اس کا ماضی کیا رہا، یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ پاکستان میں ایک واضح تقسیم موجود ہے ۔ ایک جانب وہ سیاسی جماعتیں جو انتہا پسندی کے خلاف برملا اظہار کرتی ہیں اور دوسری وہ سیاسی جماعتیں جو مصلحتاً یا کسی معاہدے کے طور پر تحریک طالبان کے خلاف نہیں بولتیں لیکن انتخابی مہم ملک کے طول و عرض میں جاری ہے اور اگر یہ تین سیاسی جماعتیں جنھیں طالبان نے دھمکی دے رکھی ہے، اگر اپنی انتخابی مہم موٴثر انداز میں نہیں چلا پاتیں اور رائے دہندگان تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو ان انتخابات کی ساکھ کیا رہ جائے گی؟ کیا انہیں صاف، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کہاجاسکے گا؟ کیونکہ غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع میسر آئیں۔ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ عمومی طور پر حکومت وقت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے لیکن کیا حکومتی ادارے اور الیکشن کمیشن میں یہ صلاحیت ہے کہ دنیا کی اس خطرناک ترین سوچ کا مقابلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرسکیں ؟ کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پر متعدد دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں اور گزشتہ چند روز میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم پر حملہ ہوا۔ اس کے علاوہ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے انتخابی امیدوار فخر الاسلام بھی طالبان کا نشانہ بنے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی۔
تادم تحریر بلوچستان کے علاقے خضدار سے اطلاعات آرہی ہیں کہ ثناء اللہ زہری اپنے ساتھیوں سمیت دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ اس خطرناک پس منظر میں موجودہ انتخابات بیلٹ اور بلٹ کے درمیان جنگ سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کی سمت کا تعین بھی یہ انتخابات کردیں گے۔ رائے دہندگان کی سوچ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ملک کو انتہا پسندی پر مشتمل نظام چاہئے یا ایک ترقی یافتہ اور بانیان پاکستان کے تصورات کے مطابق روشن خیال پاکستان ۔ یہ بات بھی قیاس میں رہنی چاہئے کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کی ضمانت پر طالبان نے بھروسہ کیا ہے، وہ بھی ان انتخابات کا حصہ ہیں۔ آیا ان کا انتخاب میں حصہ لینا طالبان کی سوچ کی نمائندگی ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں ان جماعتوں کے منشور بھی خاموش ہیں۔ نہ تو انہوں نے انتہا پسندی کی حمایت میں کوئی نکات رکھے ہیں، نہ ہی مخالفت میں۔ جبکہ حکیم اللہ محسود یہ کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے اور ہم جہاد کے ذریعے اسے ختم کرکے شریعت نافذ کریں گے۔ اس کے برعکس وہ سیاسی جماعتیں جن پر اعتماد کیاجارہا ہے، وہ جمہوریت کے راگ الاپ رہی ہیں۔ سوچ اور نظریات کا تصادم پاکستان کی اساس کو کمزور کر رہا ہے۔ نظریہ پاکستان اور دعائے قنوت کو بنیاد بنا کر امیدواران کو نااہل قرار دیاجارہا ہے۔ اس کے برعکس قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے انتخاب لڑنے کے اہل قرار پا رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں نظریات کی بنیاد پر تفریق گہری ہوتی جارہی ہے اور اس میں انتہا پسندانہ سوچ بھی شامل ہورہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو سامنے لا رہی ہیں۔ اس ضمن میں 20اپریل کو متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے امیدوار میدان میں اتار رہی ہے۔ اس کے بعد یہ خدشات بڑھ جائیں گے کہ کہیں کراچی دہشت گردی کی زد پر نہ آجائے کیونکہ امیدواروں کے حتمی شکل میں آجانے کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے انتخابی مہم کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ضمن میں حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سیاسی جماعتوں کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دیں جنہیں انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں، کیونکہ یہ انتخابات پاکستان میں موجود سیاسی تفریق یعنی بیلٹ اور بلٹ کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کو بیلٹ کے ذریعے تبدیل کرنا ہے یا بلٹ کے ذریعے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کیاجائے اور جن جماعتوں کو تحفظ سے متعلق خطرات ہیں انہیں فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے تاکہ پاکستان کے عوام پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں کہ انہیں کون سا پاکستان چاہئے؟ انتہا پسندی کا یا قائد اعظم کا؟