قربانی کے حصے دار پر اپنے حصے کی رقم قرض ہے

July 31, 2020

تفہیم المسائل

سوال:گزشتہ عید الاضحی پر میرا ایک دوست میرے گھر میں ہی رہ رہا تھا، انہوں نے مجھ سے کہا: مجھ پر قربانی واجب ہے ،آپ مجھے قربانی کا ایک حصہ دے دو۔میں نے انہیں بتایاکہ جانور کی قیمت1,26,000/=روپے ہے اور ایک حصہ 18,000/=روپے کا ہے ،میں نے کہا :نام بتادیں ، اُس نے نام دیا اور قربانی ہوگئی ۔

اب میں پیسوں کا تقاضاکرتا ہوں تو میرے دوست نے کہا: میں سمجھا آپ نے اپنی طرف سے کی ہے ،میں نے انہیں وضاحت کردی کہ یہ شرعی مسئلہ ہے ، میں نے آپ کو جانور کی قیمت بتادی تھی ، سات حصوں میں سے ایک حصہ گوشت کا آپ کو دیا ، آپ نے جو نام بتایا ،اس پر قربانی کی ، لہٰذا آپ پیسے اداکریں ۔موصوف مالی طورپر مستحکم ہیں ،میری شرعی رہنمائی فرمایئے ۔(افضال علی ،کراچی )

جواب:سوال میں درج آپ کے اور آپ کے دوست کے درمیان ہونے والے مکالمے سے یہ واضح ہوتاہے کہ دونوں کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ ایجاب وقبول پر مبنی ہے اور نفسِ بیع کوتمام کرتاہے اورمشتری (خریدار) پر ثمن (قیمت) لازم ہوتی ہے ۔

امام احمد رضا قادری ؒسے سوال ہوا: ’’دو یا چار سات آدمیوں نے ایک گائے قربانی کے واسطے خرید ی، من جملہ ان کے ایک شخص نے قیمت نہ وقت خرید کے ادا کی، نہ بعدمیں، اور وہ شریک رہا، پس اس صورت میں کس کی یا اس کی قربانی میں حرج یا غیر جائز تو قربانی نہیں ہوا‘‘۔آپ نے جواب میں لکھا:’’بیع نفسِ ایجاب وقبول سے تمام ہوئی ، مبیع ملک مشتری میں داخل اور ثمن ذمہ پر لازم ہوتی ہے، ادائے ثمن حصول ملک کے لئے شرط نہیں ،اگر نہ دے گا تو بائع کا مقروض رہے گا ،مبیع میں ملک تام ہے۔

تنویر میں ہے:’’ جب ایجاب وقبول پایا جائے، بیع لازم ہوجاتی ہے‘‘۔اسی میں ہے:وَصَحَّ بِثَمَن حَالٍ وَمُؤَجَّل اِلٰی مَعْلُومٍ۔بیع وشراء نقد ہو یا قیمت کی ادائی کے لیے مدت مقرر کردی جائے ،دونوں صورتوں میں جائز ہے ‘‘۔

پس جب شرکائے مشترین مالک گاؤ تھے اور انہوں نے بہ نیت اضحیہ قربانی کی، سب کی قربانی اداہوگئی، ثمن کا مطالبہ اُس شریک پر رہا ،اگر و ہ نیت قربانی سے دست بردار ہوکر اصلاً ذبح نہ چاہتا یا خالی گوشت وغیرہ امور غیر قُربت کی نیت سے ذبح چاہتااور ایسی حالت میں بقیہ شرکاء بہ نیت قربانی ذبح کرلیتے تو کسی کی قربانی ادانہ ہوتی کہ ان میں ایک شریک کی نیت تقرب نہیں۔

تنویر الابصار میں ہے :’’اگر قربانی کرنے والے کے ساتھ باقی چھ میں کوئی نصرانی یا گوشت کے ارادے سے شریک ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہوگی‘‘،(فتاویٰ رضویہ ،جلد20،ص:450)‘‘۔

پس آپ کے اُس مذکورہ دوست کو چاہیے کہ اپنے ذمے واجب الادا دین کو فوری اداکرے ۔