سنت ابراہیمی ؑ کی حقیقی روح!

August 01, 2020

اس برس 1441ہجری (مطابق2020عیسوی) میں عیدالفطر کے بعد عید الاضحی بھی عالمی وبا ’’کورونا‘‘ کے تناظر میں منائی جا رہی ہے جو اسمارٹ یا مکمل لاک ڈائون سمیت بہت سی احتیاطی تدابیر کا تقاضا تو کرتی ہے مگر اس ضرورت کی طرف بھی شدت سے متوجہ کرتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی دینی عبادات اور تہواروں کی اس روح کو تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کار لائیں جو لہو و لعب سے بچنے اور اللہ کی رضا کی راہ اپنانے کو لازم ٹھہراتی ہے۔ لہو و لعب کے وسیع معنوں میں قیصریت، کسرائیت، نمرودیت، فرعونیت ،قارونیت، چنگیزیت جیسے تکبر و استحصال کے تمام اندازو اطواربھی آ جاتے ہیں۔ جبکہ رضائے الہٰی کے طریقوں میں مناسک عبادات آتے ہیں جو اس وقت تک مکمل نہیں ہوتے جب تک احکامات الٰہی کو اپنی جان و مال اور متاع عزیز پر فائق سمجھتے ہوئے، قرآنی صراحت کے بموجب ،کم از کم ذاتی ضروریات سے زیادہ موجوددولت اور وسائل افلاس و مشکلات سے دوچار بندگان خدا کا حق سمجھ کر ان پر خرچ نہ کئے جائیں۔وطن عزیز میں وبا کے کیسز اور اموات کے اعداد و شمار (امریکہ، بھارت، برازیل، سمیت) متعدد ملکوں سے کم ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور شکر ادا کرتے رہنا چاہئے تاہم عیدالاضحی پر اس غفلت سے اجتناب ضروری ہے جس کے باعث عیدالفطر کے موقع پر کورونا میں مبتلا ہونے والوں سے اسپتال بھر گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریز نے لندن میں ایک لیکچر کے دوران ’’کوویڈ 19-‘‘ کے حوالے سے ایک خاص پہلو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وبا نے ہمارے معاشروں کے کمزور ڈھانچے اور ان میں موجود دراڑیں عیاں کر دی ہیں جس کے باعث عالمی طاقتوں کو نئے سماجی معاہدے پر غور کرنا چاہئے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے ماضی کے سماجی معاہدے اور ورلڈ آرڈر طاقتوروں کے مفادات اور کمزوروں کے استحصال کا ذریعہ بنے ہیں۔تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ پر نازل کی گئی کتاب قرآن مجید میں بتاتا ہے کہ انسان کا اولین عہد اپنے خالق و مالک سے عالم ارواح میں ہی ہو چکا ہے جس میں فرداً فرداً حلف اٹھایا گیا کہ اللہ کے سوا کسی کو معبود یا اس کا شریک نہیں ٹھہرایا جائے گا اور اللہ ہی کے مقرر کردہ ضابطہ حیات پر عمل کیا جائے گا۔ آج سے چار ہزار برس قبل اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حق تعالیٰ کی طرف سے کمسن بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا جو حکم ملا اس کی تعمیل کے لئے باپ اور بیٹے کی پوری آمادگی اسی میثاق کی عملی مثال ہے کہ اللہ کے حکم پر جان ،مال اور متاع عزیز کی قربانی کے لئے ہر لمحے آمادہ رہا جائے۔ مشیت الٰہی نے پوری قوت سے چلائی گئی چھری کو بے اثر کرتے ہوئے جنت سے لا کر پہنچایا ہوا ایک مینڈھا ذبح کرا کر وحی کے ذریعے اسے سند قبولیت عطا فرمائی تو جانوروں کی قربانی کی صورت میں اس سنت کی ادائیگی اللہ اور بندوں کے اولیں عہد کی تجدید کا ذریعہ ٹھہری ۔اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا اس بات کا اقرار ہے کہ ہماری جان اللہ کی نذر ہو چکی ہے، اللہ جب اسے طلب کرے گا، ہم بلا تامل پیش کریں گے، یہی بات عیدالاضحی پر جانور کی قربانی پیش کرتے ہوئے کہی جاتی ہے اور ان الفاظ کو حرز جاں بنا کر ہر لمحے، ہر عمل میں ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ ’’میری نماز، میری عبادت ،میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کیلئے ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ کورونا کے منظرنامہ میں لاک ڈائون اور معاشی سرگرمیوں کے جمود کے باعث بہت سے لوگ بیروزگار اور متعدد خاندان فاقہ کشی کے شکار ہوئے ہیں۔ مذکورہ الفاظ ہمیں یاد دلا رہے ہیں کہ مشکل وقتوں میں اللہ کے بندوں کی ہر طرح سے مدد کرنا بھی اللہ کی فرماں برداری کا ضروری تقاضا ہے۔