ہور چوپو گنے

August 08, 2020

حرف وحکایت … ظفر تنویر
اب غل غپاڑہ کرنے، شور مچانے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے سے کیا حاصل ہوگا، یہ سب کچھ تو پہلے سوچنے کی ضرورت تھی، ذمہ داریاں خود اپنےہاتھ میں لینے کا مقام تھا لیکن ہم سننے، سوچنے اور سمجھنے والے تو نہیں ہیں، ہمارے دل میں جو آتا ہے کر بیٹھتے ہیں اور جب معاملات بگڑتے ہیں تو تمام تر ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر اپنے ہاتھ دھو لیتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ عید قربان کی تیاریاں زور شور سے کی گئی تھیں اور عزیز رشتہ داروں کو گھر بلانے اور دوستوں کے گھروں میں جانے کے پروگرام بنائے جارہے تھے کہ وزیراعظم نے عید سے صرف دس ،بارہ گھنٹے قبل کورونا وائرس (کوویڈ19) کے بڑھتے ہوئے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے ایک دوسرے کے گھروں میں جانے اور عام میل ملاقات پر پابندی لگا دی، پابندی کا دائرہ یارکشائر اور لنکاشائر تک زیادہ سخت رہا ،لیسٹر پہلے ہی اس کی زد میں آچکا ہے، یارکشائر اور لنکاشائر میں مانچسٹر، بلیک برن، برنلے، پینڈل اولڈھم، بولٹن، پریسٹن، بریڈفورڈ، ہیلی فیکس، ڈیوز بری اور ہڈرزفیلڈ کے علاقے شامل ہیں اور اسے محض اتفاق جان لیجئے یا اصل صورت جانیے یہ حقیقت ہے کہ ان سبھی علاقوں، شہروں اور قصبوں میں ایشیائیوں خصوصاً ہم پاکستانی ،کشمیری تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ بریڈفورڈ میں تو ہم پاکستانی،کشمیری کُل آبادی کا تقریباً 25فیصد ہیں ،اکثریت مسلمانوں کی اور اس کی واحدنیت پر ایمان رکھنے والوں کی ہے اور جانیں بھی سب سے زیادہ ان ہی کی جارہی ہیں۔ کوویڈ19سے مرنے والوں کے اعدادوشمار دیکھیں تو یہ جان کر جھٹکا سا لگتا ہے کہ بعض علاقوں میں اس وائرس کا شکار ہونے والے ایک سفید فام شخص کے مقابلہ میں مرنے والے ایشیائیوں کی تعداد ڈھائی سے زیادہ ہے بعض علاقوں میں تو یہ تناسب اور بھی بڑھ جاتا ہے اور ایک سفید فام کے مقابلے میں چار رنگ دار اس وائرس کے باعث اپنی جان گنوا رہے ہیں گزشتہ ماہ جب حکومت نے اس سلسلہ میں لگائی گئی پابندیوں میں ڈھیل دیتے ہوئے یکم اگست کو مزید سہولتیں بحال کرنے کا اعلان کیا تھا تو ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی گئی تھی کہ اگر کسی علاقہ میں انفیکشن بڑھا تو ڈھیل واپس بھی لی جاسکتی ہے اور یہی سب کچھ لنکاشائر اور یارکشائر کے لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے، دوسروں کا تو ذکر ہی کیا اپنوں کی یہ حالت ہے کہ آگے بڑھ بڑھ کر کورونا کو بلایا جارہا ہے آوازیں دی جارہی ہیں ،حکومت ہے کہ سماجی فاصلہ رکھنے پر زور دے رہی ہے اور ہم ہیں تو مصافحہ تو بات ہی کوئی نہیں معانقہ سے کم پر راضی ہیں۔ ارشاد رچیال صحافی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک قریبی عزیز کے جنازہ میں شریک ہوئے تو سماجی فاصلہ کا دھیان ان کے ذہن میں تھا کہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ اتنے عرصہ بعد ملے ہو ’’جپھی‘‘ تو ڈال لو، ارشد رچیال کے بقول مرنے والا بھی کوویڈ19کا شکار بنا اور لوگ تھے کہ کسی ڈر اور خوف کو قریب لائے بغیر اس طرح ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے کہ جیسا کچھ ہوا ہی نہیں، حکومت کی طرف سے دی گئی سہولتوں میں سے ایک شادی کی تقریب بھی تھی جس میں آپ زیادہ سے زیادہ 30لوگوں کو مدعو کرسکتے تھے اب سنیے اس شادی کا احوال جو شفیلڈ کے ایک ریسٹورنٹ ،میرج ہال میں ہوئی، مہمانوں کی تعداد30 سے بہت زیادہ تھی لیکن حل انہوں نے اس کا یہ نکالا کہ ہال کے وسط میں 30افراد کے بیٹھنے کی جگہ بنادی جب کہ باقی مہمانوں کو ہال کے اطراف میں علیحدہ علیحدہ میز لگا کر بٹھا دیا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ شادی تو درمیان میں ہورہی ہے اور اطراف میں ریسٹورنٹ کے عام گاہک بیٹھے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کو بروقت ملنے والی اطلاع پر یہ منصوبہ پوری طرح مکمل نہ ہوسکا۔ ان دو واقعات سے یہ اندازہ بڑی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا اپنا رویہ اپنی سلامتی کے بارے میں کیسا ہے۔ اب عید کو ہی دیکھ لیجئے عید کی رات ہمارے ریستوران، کافی شاپس، آئس کریم پارلرز اور چائے کے دھابوں پر جو رش لگا ہوا تھا اور جس طرح نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان جگہوں پر ٹوٹے پڑے تھے اسے دیکھتے ہوئے قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہ شہر یا قصبہ ہے جو مسلسل کورونا وائرس کی زد میں ہے، آپ گلہ ضرور کیجئے کہ ہماری عید کیوں خراب کی گئی حکومت کو گالیاں بھی دیجئے لیکن یہ کبھی تسلیم نہ کیجئے گا کہ نئی پابندیاں اور پابندیوں میں سختیاں شاید ہماری وجہ سے ہوں، ہماری مساجد نے یقیناً انتہائی ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کیا ہے اور عید کے روز سماجی فاصلوں کو یقینی بناتے ہوئے لوگوں کو اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس پر وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن بغیر سوچے سمجھے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے پابندیوں پر منہ بنانے والوں کو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہور چوپوگنّے‘‘۔