انڈین گروپوں کا برطانوی وزیراعظم سےسکھ، کشمیری مظاہرین پر پابندی کا مطالبہ

August 15, 2020

لندن (مرتضیٰ علی شاہ ) 100سے زیادہ برٹش انڈین تنظیموں نے برطانوی وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ 15 اگست کو خالصتان کے سکھ حامیوں کو بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرے سے روکیں جسےیوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بورس جانسن کو لکھے گئے خط پر ہندوستانی ہائی کمیشن اور ہندوتوا گروپوں سے منسلک 102تنظیموں نے دستخط کیے ہیں جو برطانیہ میں پرامن سکھوں اور کشمیری حقوق کے کارکنان کی سخت مزاحمت کا سامنا کرتے ہوئے بے بسی محسوس کرتے ہیں۔اس خط میں 12 اگست کی تاریخ درج تھی اور تنظیموں کے سربراہان نے ʼانڈین ڈئسپرا یوکےکے لیٹر ہیڈ پر دستخط کیے تھے ، اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ "ہر سال ہندوستانی یوم آزادی کے موقع پر ، خالصتان کے حامی مظاہرین کی جانب سے مبینہ طور پر پاکستان کی سپورٹ سے ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انڈینز کو اپنا یوم آزادی منانا مشکل ہوجاتا ہے۔ خط میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ یہ دن تمام انڈینز اور برطانیہ میں بس جانے والے انڈینز کے لئے خوشگوار موقع ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان اور پاکستان کی پرتشدد خالصتان گروپوں کے لئے سپورٹ ہائی کمیشن آف انڈیا، لندن کے باہر حالیہ برسوں میں جشن منانے والوں پر تشدد آمیز حملوں اور بے چینی سے ہمارے جشن میں رکاوٹ بن گئی ہے۔اس طرز پر مشاہدہ دیر تک کیا جاتا ہے اور ہر سال تشدد ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہم آپ کی توجہ گذشتہ سال (2019) کو جشن منانے کے لئے جمع ہونے والے انڈینز کے علاوہ پولیس اہلکاروں پر بھی تیز دھار ہتھیاروں سے پرتشدد حملوں کی جانب مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر سال بی جے پی سے منسلک گروہوں کی جانب سے یہ دعوی کیا جاتاہے کہ خالصتان کے حامی مظاہرین نے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے، تاہم پولیس نے کہا ہے کہ کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا ، نہ ہی کسی قسم کے ہتھیار کی موجودگی کا کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی سکھوں اور کشمیریوں کی جانب سے کوئی حملہ ہوا ہے۔انڈین ڈائسپرا نے دعویٰ کیا ہے کہ خالصتان تحریک کے لئے پاکستان کی سپورٹ سے برطانیہ میں انڈین ڈائسپرا متاثر ہو رہا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے حمایت یافتہ خالصتان کے حامی گروپوں کو پر تشدد احتجاج کی اجازت دیئے جانے کے باعث انڈین ڈائسپرا متاثر ہو رہا ہے۔ خط میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ ان حالات میں ہماری درخواست ہے کہ صورت حال کا نوٹس لیا جائے اور ایسے مظاہروں کو بالخصوص انڈیا ہائوس ، ہائی کمیشن آف انڈیا پر روکا جائے۔ خط کی نقول وزیر داخلہ پریٹی پٹیل ، میئر لندن اور میٹروپولیٹن پولیس سروس، لندن کے کمشنر کو بھی بھیجی گئی ہیں۔ وزیر اعظم کے نام یہ خط برطانیہ میں بنیادی سکھ حقوق گروپ سکھ فیڈریشن کی جانب سے اس الزام کے بعد لکھا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ کنزرویٹیو رہنما لارڈ رامی رینجر سکھ حقوق اور مطالبات کی قیمت پرہندوتوا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت انڈین حکومت کے لئے کام کر رہے ہیں۔انڈین گروپوں نے وزیر اعظم کو یہ خط گزشتہ سال بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل375کی منسوخی اور بعد ازاں شہریت کے معاملہ پر انڈین ہائی کمیشن پر ہزاروں افراد کے مظاہرہ کے پیش نظر لکھا ہے۔اس مظاہرہ میں ہزاروں افراد بشمول ہندوئوں ، سکھوں ، مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں نے شرکت کی تھی۔انڈین ہائی کمیشن کے باہر پرامن سکھ اور کشمیری مظاہرین پر بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے پتھرائو کے باعث گزشتہ سال تشدد بھڑک اٹھا تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ نے چند افراد کو گرفتار کیا تھا مگر کسی پر چارج عائد نہیں کیا گیاکیونکہ خالصتان کے حامیوں اور کشمیریوں سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے خلاف تشدد کا کوئی ثبوت ملا ۔