تلخ و شیریں

September 11, 2020

زبان سے نکلنے والے الفاظ دو دھاری

تلوار کی طرح ہوتے ہیں

٭…یونیورسٹی میں ہمارے ایک پروفیسر تھے جو اپنی کلائی میں لیڈی گھڑی باندھتے تھے، جسے دیکھ ہم سب طلباء کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی، ایک عرصے بعد وائس چانسلر کے ذریعے جب ہم پر انکشاف ہوا کہ پروفیسر صاحب جو زنانہ گھڑی پہنتے ہیں وہ ان کی فوت شدہ بیوی کی ہے۔اس واقعے سے میں نے سیکھا کہ!! ’’کچھ دل بِنا بولے محبوب کی رحلت کے بعد بھی اَلم اور درد محسوس کرتے ہیں‘‘

٭… ایک دفعہ میرا ہسپتال میں کسی مریض کی عیادت کے لیے جانا ہوا، کوریڈور میں چلتے ہوئے ایک جواں سال لڑکی کی وِگ (بال) گر گئی وہاں موجود تمام لوگ اس پر ہنسنے لگے، آگے بڑھ کر جب ایک دوسری عورت نے اس کی مدد کی تو وہ روتے ہوئے کہنے لگی: اس میں میرا کوئی قصور نہیں کینسر نے میرے بال لے لیے، اس لیے مجھے یہ آرٹیفشل وِگ لگانا پڑتی ہے۔

٭… ایک دن قبرستان سے گزرتے ہوئے میں نے دس سالہ بچے کو ایک قبر پر کھڑا کچھ کہتے ہوئے سنا جو کہہ رہا تھا: ’’ماما اٹھو میرے ساتھ اسکول چلو، استاد مجھے تمام لڑکوں کے سامنے مارتے اور کہتے ہیں کہ تمہاری ماں کتنی سست اور کاہل ہے جو تمہاری پڑھائی کا خیال نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔کسی کی ظاہری حالت دیکھ کر ہمیں قطعاً مذاق یا کسی قسم کا بھونڈا ری ایکشن نہیں دینا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اندر ہزار دُکھ چھپائے ہوئے ہو ،جس کا علم ہمیں نہ ہو بولنے، سوچنے اور ری ایکشن دینے سے پہلے اگلے بندے کے احساسات کا خیال رکھیئے، بلاشبہ بعض باتیں انسان کو قتل کر دیتی ہیں، زبان سے نکلنے والے الفاظ دو دھاری تلوار کی طرح ہوتے ہیں۔!!