مربوط بلدیاتی نظام، جمہوری ارتقا کی ضمانت

September 17, 2020

کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کے ارتقا کا اندازہ مقامی حکومتوں کے توسط سے عوام کو خدمات، سہولیات اور انتظامی بندوبست دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں مقامی حکومت کے ادارے کا تسلسل نہ ہونے کی اصل وجہ سیاسی نظام پر جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، ریاستی اداروں، سجادہ نشینوں اور سول بیوروکریسی کا قبضہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے نوآبادیاتی حکمرانی کا تسلسل جاری نہ رہ سکے گا اور عام آدمی سیاسی لیڈر بن کر ان کے مفادات کے حصول میں رکاوٹ بن جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 32کی روح سے مقامی حکومت کو بھی مملکت کا حصہ بیان کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 140-Aمیں صوبوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف مقامی حکومتوں کا نظام بنائے بلکہ ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریاں بھی تفویض کرے۔ سندھ کی حکومت نے ان انتخابات کا التوا اس بنیاد پر کردیا ہے کہ 1998کی مردم شماری کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے اس لئے مردم شماری کے نئے نتائج آنے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ بلوچستان حکومت نے بھی لا اینڈ آرڈر کا بہانہ بنا کر اس عمل سے جان چھڑا لی ہےجبکہ پنجاب نے صرف پنچایت اور نیبر ہڈ کونسل کے الیکشن نومبر دسمبر میں کرانے کا اعلان کیاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا ہے جو کہ آئین سے متصادم ہے ۔پنجاب کے اس ایکٹ میں عورتوں کی نمائندگی کی شرح پچھلے قانون کے مقابلے میںنصف کردی گئی ہے جو کہ خیبر پختونخوا میں شرح نمائندگی سے بھی کم ہے۔ پنجاب کے اس قانون میں ریاستی افسر شاہی کی مداخلت اور کنٹرول و نگرانی غیرجمہوری عمل ہے جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ منتخب نمائندے غیرذمہ دار اور بدعنوان ہوتے ہیں یوں ان کی نگرانی پر افسر شاہی کو تھوپا جاتا ہے کیونکہ وہ غیرجانبدار اور ریاستی اداروں سے مخلص ہوتے ہیں۔آج تہتر سالوں کے بعد ہمیں اس جاگیردارانہ اور نوآبادیاتی سوچ سے چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہئے تھا لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف نے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ضلع کونسل کے تمام اختیارات تحصیل کونسلوں اور مقامی حکومتوں کودیے جاتے ۔ نیبر ہڈ کونسلوں اور ولیج پنچایتوں کو مقامی حکومت سے جان بوجھ کر بالکل الگ رکھا گیا ہے تاکہ وہ آئین سے ماورا ہونے کی وجہ سے صوبوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں اور وہاں غیرجماعتی الیکشن کرائے جا سکیں جبکہ یہی قانون خیبر پختونخوا میں اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسی طرح پنجاب میں امیدوار کی کم سے کم عمر 25سال ہے جب کہ بقیہ صوبوں میں عمر کی حد 21سال ہے۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت اپنی مرضی کا لوکل گورنمنٹ نظام لاتی ہے تاکہ جمہوری ادارے اپنی بنیادوں پر ہی نہ کھڑے ہو سکیں اور یوں اشرافیہ کا تسلط سماج پر برقرار رہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک بھر کے سبھی صوبوں میں ملتے جلتے مقامی حکومتی نظام اور ماڈل ہونے چاہئیں۔ نیبر ہڈ کونسلوں اور پنچایتوں کا انتظامی اور قانونی تعلق تحصیل کونسلوں اور شہری مقامی حکومتوں سے ہونا چاہئے اور دونوں قوانین کو مدغم کر کے ایک مقامی حکومتوں کا قانون بنانا چاہئے جیسا کہ خیبر پختونخوامیں ہے۔ ایجوکیشن، ہیلتھ اتھارٹی، ٹائون پلاننگ، تعمیرات، پانی کی فراہمی اور نکاسی وغیرہ کے تمام انتظامات و اختیارات لوکل گورنمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں۔

یاد رہے کہ مقامی حکومتوں کا قانون دراصل سیاسی ارتقا کی ایک سیڑھی ہوتا ہے جس میں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع ملتے ہیں تاکہ وہ اپنی سیاسی سوچ بتدریج پختہ کر سکیں۔ کم از کم یورپین نمائندگان سے مل کر تو اسی چیز کا احساس ہوتا ہے کہ بلدیاتی نظام ہی وہ واحد ادارہ ہے جو سیاسی کارکنوں کی پرورش کرتے ہوئے انہیں صوبائی و وفاقی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرتا ہے۔ جب تک بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل جدید خطوط پر نہیں کی جائے گی تو اس کا نقصان ملکی سیاست میں باشعورسیاسی رہنمائوں کے قحط کی شکل میں بھگتنا پڑتا رہے گا۔ اس لئے اشد ضرورت ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اپنے پرانے مائنڈ سیٹ سے ہٹ کر ایک مربوط مقامی حکومتوں کا قانون نافذ کریں تاکہ مضبوط، پُرامن اور خوشحال پاکستان ارتقا پزیر ہو سکے۔