ریکوڈک ریلیف

September 19, 2020

ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں اور پاکستان میں سب سے بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں کی بدانتظامی کی وجہ سے ہم اِن ذخائر سے ابھی تک مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں کر سکے۔ حکومت بلوچستان نے ریکوڈک کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے 1993میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ بلوچستان ڈویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔ چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کئے تھے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی) کو فروخت کئے۔ بعد میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ جس پر جولائی 2019میں اکسیڈ ٹریبونل نے آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان، جو ریکوڈک میں کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور اکسیڈنے پاکستان کو 6ارب ڈالر ٹیتھیان کو ادا کرنے کا حکم سنایا تھا۔ اب اِس ریکوڈک معاملے پراکسیڈ میں پاکستان نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے 6ارب ڈالر کے جرمانے پر مستقل حکم امتناع حاصل کرلیا ہے جو کہ پاکستان کی قانونی ٹیم کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس قانونی کامیابی کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ ریکوڈک کے وسائل کو کام میں لایا جائے تاکہ خطے کی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔