اپوزیشن کیلئے آگے سخت گھڑیاں

September 26, 2020

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا سیاسی اتحاد بنتا ہے تو جمہوری حکومت ہو تو مارشل لا کی آمد کا خیال دماغ میں آتا ہے اور اگر فوجی دور ہو تو اسے الوداع کہنے کا وقت محسوس ہوتا ہے۔ اپنی اس منطق کے پیچھے جو مثالیں سوجھ رہی ہیں، ان میں 1967میں پانچ پارٹیوں کا اتحاد، جس کا نام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ تھا، جس کے روح رواں نوابزادہ نصر اللہ خان تھے۔ یہ اتحاد بعد میں پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی کے نام سے جانا گیا۔ یہ اتحاد ایوب دور کے خاتمے کا سبب بنا۔ 1977 کا پاکستان قومی اتحاد PNA دیکھیں، جس میں نظام مصطفیٰ کی تحریک چلائی گئی اور جمہوری دور کا خاتمہ ہوا، اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء کا دور شروع ہوگیا، اس وقت ائر مارشل اصغر خان نے فوج کو خط لکھ کر دعوت اقتدار دی، پھرجنرل ضیاء کے گیارہ سال کے دوران MRD بنی۔ اس اتحاد نے جمہوریت کی بحالی کیلئے اور مارشل لا کے خاتمے کیلئے تحریک چلائی اور آخرکار جنرل ضیاء کا مارشل لا ختم ہوا گو کہ جنرل ضیاء سے خلاصی تو ان کی ہوائی حادثے میں جاں بحق ہونے پر ہوئی لیکن ایم آر ڈی کی تحریک صورتحال کو اس نہج پر لے آئی تھی جہاں فوج کیلئے اقتدار برقرار رکھنا بہت مشکل ہوچکا تھا۔ بے نظیر کا دور آیا تو 1988میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا ڈالا، اب موجودہ اتحاد جو گیارہ پارٹیوں کے اتحاد سے موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے، جس کا نام بھی وہی 1967 والے اتحاد کا رکھا گیا ہے، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، ویسے تو اس کے علاوہ بھی یہ خصوصی طور پر فوج کی آمد کی راہ ہموار کرنے یا رخصتی کی ڈولی میں بٹھانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ حالیہ اتحاد پر تھوڑا جائزہ لینے سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر طائرانہ نظر دوڑالیں کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے اور رہتا ہے کہ انہیں سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے جبکہ وہ خود سیاست سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف نے بھی حال ہی میں ایسا بیان دیا ہے لیکن پاکستان بننے کے فوراً بعد بلکہ روز اوّل سے ہی فوج کبھی بھی سیاسی معاملات سے دور نہیں رہی بلکہ ایک عالم دین کے تجزیئے کے مطابق کیونکہ برٹش راج میں بھی ہمیشہ اصل میں فوج ہی کا کنٹرول تھا۔ اس کنٹرول کے دوران انہوں نے جو مقامی انڈین فوج بنائی تھی جس کی تربیت اور تعلیم ہی عوام کو کنٹرول کرنا تھا اور سیاست کو اپنے ہاتھ میں رکھنا تھا۔ اسی فوج کا ایک حصہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔ اس لئے ان کے مزاج میں عوام کو کنٹرول کرنا ان کی گٹھی میں شامل ہے۔ جنرل ضیاء نے جب نظریاتی سرحدوں کا نظریہ دیا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ پاکستان میں وہی نظریہ پنپ سکے گا جو اسٹیبلشمنٹ درست سمجھتی۔ یہ ادارہ پاکستان کا سب سے مضبوط اور منظم ادارہ ہے اور سب سے زیادہ طاقتور بھی، دوسری اس ادارے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سویلین ادارے کے آگے مالی معاملات سے لے کر دیگر داخلی امور تک جواب دہ نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا جب جنرل مشرف کو عدالت میں پیش کیا جانا ہوتا تھا تو عدالت پہنچنے سے پہلے اس کی گاڑی کا روٹ بدل دیا جاتا تھا اور جنرل مشرف کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کئے گئے۔ کیونکہ یہ سول عدالت تھی۔ اب موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے جو پی ڈی ایم اتحاد بنا ہے، آیا اس کے پیچھے بھی کوئی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے یا نہیں، اس کا فی الحال وثوق سے تو کہنا مشکل ہے۔ البتہ اس کی کامیابی اگر ہوتی ہے تو یقینا کہیں پس پردہ ہاتھ ضرور نظر آجائیں گے، جس طرح اس وقت موجودہ حکومت کے ساتھ تو اسٹیبلشمنٹ کا کھلا ساتھ موجود ہے بلکہ موجودہ حکومت کو تو بارہا اس کا ذکر کرتے رہنا پڑتا ہے کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں۔ ایسے ہی پی ڈی ایم کے ساتھ کیسی گیم ہورہی ہوگی، ایک دوماہ اس کا پتہ چل جائے گا۔ کیونکہ ایسے اتحادوں میں کسی ایک نقطے پر اکٹھے ہونے سے ماضی کے اختلافات کو بھولنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ یورپ میں بھی کئی طرح کے اتحاد اور متحدہ الائنس بنتے رہتے ہیں لیکن کئی اتحاد کافی دیرپا اور طویل عرصے تک چلتے ہیں۔ مثلا برطانیہ میں پروگریسو الائنس یا 1830میں بننے والا پاپولر فرنٹ جو کہ اینٹی فاشزم تھا۔ اس طرح دنیا بھر میں لوگ مختلف مخصوص مقاصد کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوتے رہتےہیں۔ تاہم پاکستان کا پی ڈی ایم فی الحال تو کسی دیہاتی اور ٹریڈ یونین سپورٹ سے عاری ہے، جس کی وجہ سے یہ فطری اتحاد نہیں ہے۔ سیاست میں نہ تو مستقل دوست ہوتا ہے نہ مستقل دشمن، اب تو نہ ہی مستقل اصل۔ جس کی وجہ لوگوں نے دیکھی ہے کہ کوئی بھی سیاستدان اپنی کہی گئی بات پر کبھی قائم نہیں رہتا بلکہ اسے سیاسی بیان کہہ کہ آگے نکل جاتا ہے، جس سے عوام ایسی سیاست اور سیاستدان دونوں سے بددل ہوجاتے ہیں، اب تو چند اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں نواز شریف کو اس کے فوج کی جانب موقف کی وجہ سے الطاف حسین کی طرح غدار وطن قرار دینے کی بھی باتیں ہورہی ہیں۔ ویسے وہ غدار نہیں کم از کم نواز شریف کی وطن واپسی کے دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں، اس لئے پی ڈی ایم کا مستقبل ابھی دھندلا ہے۔