آذربائیجان، آرمینیا جنگ پورے خطے کیلئے خطرہ

October 11, 2020

آذربائیجان اور آرمینیا میں ایک مرتبہ پھر جنگ چِھڑ گئی ہے(جو تادمِ تحریر جاری ہے)۔ اطلاعات کے مطابق پہلے تین دنوں میں دونوں اطراف 100 سے زاید ہلاکتیں ہوئیں۔اِن حملوں میں زمینی افواج کے ساتھ فضائیہ کا بھی استعمال ہوا۔ ہلاک شدگان میں عام شہری بھی شامل ہیں۔ نگورنو کارا باخ کی ملکیت کا تقریباً ایک سو سال پرانا تنازع ایک مرتبہ پھر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ کا سبب بنا۔یہ علاقہ وسط ایشیائی مسلم ریاست، آذربائیجان کا حصّہ ہے، لیکن وہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔گو کہ ایک معاہدے کے تحت یہ ایک خود مختار علاقے کے طور پر کام کرتا ہے، لیکن وسط ایشیا اور جنوب مشرقی یورپ میں واقع اِن دونوں اہم ریاستوں کے درمیان یہ تناؤ کی بنیادی وجہ بھی ہے۔

سلامتی کاؤنسل کے ہنگامی اجلاس میں، جو جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی درخواست پر طلب کیا گیا، فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے فریقین پر بات چیت کے ذریعے تنازعات طے کرنے پر زور دیا گیا۔تُرک صدر، طیّب اردوان نے آرمینیا سے نگورنو کارا باخ کا قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔امریکا اور روس نے جنگ بندی کی اپیل کی، جب کہ چین نے اُمید ظاہر کی ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا بات چیت کے ذریعے اختلافات طے کرلیں گے۔ پاکستان، تُرکی کے بعد وہ دوسرا مُلک تھا، جس نے آذربائیجان کو تسلیم کیا۔پاکستان کے آذربائیجان سے بہت قریبی تعلقات ہیں، اِسی لیے اِس نے واضح طور پر کہا کہ ’’پاکستان اپنے برادر مُلک، آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘ہمارے ہاں وسط ایشیا کے مسلم ممالک کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، لیکن اِس ضمن میں جذباتی لگائو کے علاوہ ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہم اِس بات کا بھی اکثر ذکر کرتے ہیں کہ گوادر پورٹ اور سی پیک ہائی وے کی تعمیر سے ان وسط ایشیائی ریاستوں کو دنیا بھر سے تجارت کی ایک راہ داری فراہم ہوجائے گی، لیکن وسط ایشیا میں ہو کیا رہا ہے؟ ہمیں اِس حوالے سے بھی معلومات ہونی چاہئیں۔وہاں کے وسائل کیا ہیں؟وہ کس قسم کے معاملات سے دوچار ہیں؟ بڑی طاقتوں کی مداخلت کس نوعیت کی ہے؟ اور علاقائی کھلاڑیوں کا کیا کردار ہے؟ اِن امور کے درست تجزیے ہی سے خطّے میں پاکستان کے کردار اور مفادات کا تعیّن کیا جا سکے گا۔

صدر پیوٹن

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان حالیہ لڑائی کس طرح شروع ہوئی؟ پہلے اِس پر بات کر لیتے ہیں۔دونوں مُلکوں نے ایک دوسرے پر جارحیت کا الزام لگاتے ہوئے اپنی افواج کو پیش قدمی کا حکم دیا، جس کے بعد باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔آرمینیا میں مارشل لاء لگا دیا گیا، جب کہ آذربائیجان کے کچھ سرحدی علاقوں میں بھی مارشل لاء کا نفاذ کیا گیا۔ نگورنو کارا باخ میں سرگرم علیٰحدگی پسندوں نے الزام لگایا کہ آذربائیجان کی جانب سے اُن کی بستیوں پر حملہ کیا گیا، جب کہ آرمینیا کے حکّام کے مطابق ان فضائی حملوں میں 16 افراد ہلاک ہوئے، جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔اُدھر، آذربائیجان کا کہنا ہے کہ پہل آرمینیا کی جانب سے کی گئی اور حملوں میں اُس کے پانچ شہری ہلاک ہوئے۔

آرمینیا کے وزیرِ اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ’’ یہ خطّہ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔‘‘ اُنہوں نے تُرکی پر جارحانہ طرزِ عمل کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ’’ عالمی برادری عدم استحکام کی سازشیں روکے۔‘‘ آذربائیجان کے صدر نے کہا کہ’’ آرمینیا کے فوجی حملوں کے جواب میں بڑے پیمانے پر کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ جوابی کارروائی میں کئی علاقوں کو آزاد کروا لیا گیا۔ جلد ہی علاقے پر 30 سالہ طویل قبضہ ختم کردیں گے۔‘‘وہاں کی وزراتِ دفاع کے مطابق، آرمینیا کے بارہ دفاعی نظام بھی تباہ کردیے گئے۔لڑائی کسی مخصوص متنازع علاقے یا سرحد تک محدود نہیں رہی، بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ممالک کے کئی علاقوں تک پھیل گئی۔

آرمینیا نے تُرکی پر اُس کا ایک لڑاکا طیارہ مار گرانے کا الزام لگایا۔تاہم، تُرکی نے اس الزام کو مسترد کردیا۔ البتہ، اس الزام سے جنگ میں تُرکی کی غیرمعمولی دل چسپی کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔ روس نے، جو آرمینیا کا سب سے قریبی حلیف ہے، تُرکی سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کرے۔یاد رہے، تُرکی اور آرمینیا میں کشیدگی پہلی عالمی جنگ سے بھی پہلے سے چلی آ رہی ہے۔اُس وقت دونوں میں جنگ ہوئی تھی، جس میں آرمینیا کو کام یابی ملی۔

آذربائیجان اور آرمینیا سوویت یونین کے زمانے میں اُس کا حصّہ تھے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سویت یونین بکھرا، تو یہ دونوں پڑوسی، آزاد ریاستوں کے طور پر اُبھرے۔ سوویت یونین کے زمانے میں نگورنو کارا باخ آذربائیجان کا حصّہ تھا، لیکن آبادی کی اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار ہے۔ اگر آرمینیا اور آذربائیجان کی سرحدوں پر نظر ڈالی جائے، تو اِس خطّے کی اہمیت اور پیچیدگی کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔آذربائیجان کے اطراف میں’’ کیسپین سی‘‘ روس، جارجیا، ایران اور ایک چھوٹی سی سرحد کے ساتھ تُرکی موجود ہے۔جب کہ آرمینیا کی سرحدیں آذربائیجان، روس، جارجیا، ایران اور تُرکی سے ملتی ہیں۔آذربائیجان اور آرمینیا1922 ء سے1994 ء تک سوویت یونین کا حصّہ رہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد نگورنو کارا باخ کی مقامی پارلیمان نے علاقے کو عیسائی ریاست، آرمینیا کا حصّہ بنانے کے لیے ووٹ دیا۔

طیّب اردوان

اِس کے ساتھ ہی نسلی فسادات شروع ہوگئے۔ماسکو سے آزادی کے بعد دونوں مُلکوں میں اِس ٹکڑے کے لیے باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ اُس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور کم ازکم دس لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔1994 ء میں روس کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی، لیکن اس سے قبل زیادہ تر علاقے پر آرمینیا کا تسلّط قائم ہوچُکا تھا۔ روس کی کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس میں طے پایا کہ نگورنو کارا باخ، آذربائیجان ہی کا حصّہ ہو گا، لیکن اس کا کنٹرول مقامی آرمینیائی نسل کے پاس رہے گا، جنہیں آرمینیا کی حکومت کا تعاون حاصل رہے گا۔شاید اِسی لیے آذربائیجان کے سابق صدر، علیف حیدر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ’’ ہم دو ریاستوں والی ایک قوم ہیں۔‘‘

آذربائیجان تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس کے دارالحکومت،’’ باکو‘‘ کا شمار دنیا کے اُن شہروں میں ہوتا ہے، جہاں سے سب سے زیادہ تیل نکلتا ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ تیل زمین کی بجائے پہاڑوں سے کشید کیا جاتا ہے۔ہمیں باکو دیکھنے کا موقع ملا ہے، جو ایک جدید اور خُوب صورت شہر ہے۔کیسپین سی کے کنارے واقع اس شہر میں تاجروں کی خُوب آمدورفت رہتی ہے۔ یہ وسط ایشیا کا کمرشل حب ہے۔ باکو سے تیل لے جانے والی پائپ لائنز یورپ کو دو اطراف سے تیل سپلائی کرتی ہیں۔اوّل کیسپین سی سے ہوتے ہوئے تُرکی کو اور وہاں سے یورپ تک۔ دوسری لائن قفقاز کے علاقے سے گزرتی ہے، جن میں نگورنو کارا باخ بھی شامل ہے، لیکن وہاں تیل موجود نہیں۔

اِس لیے یہ حالیہ جنگ کسی طور پر تیل کی جنگ نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آذربائیجان تنائو کی وجہ سے یورپ کو تیل کی سپلائی روک دے، لیکن یہ بھی عارضی طور پر ہی ممکن ہے، کیوں کہ تیل کی قیمتیں پہلے ہی کم ہیں اور کم قیمتوں کی وجہ سے اس کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ اس کا تمام تر انحصار اسی قدرتی وسیلے پر ہے۔آذربائیجان کی آبادی تقریباً ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔آرمینیا کے پاس ایسا کوئی قدرتی وسیلہ نہیں اور یہ اپنی صنعت، سروسز اور زرعی شعبوں ہی پر انحصار کرتا ہے۔آرمینیا کی تاریخ یورپی ممالک سے بھی پرانی ہے۔

اس کا قدیم ترین مسیحی تہذیبوں میں شمار ہوتا ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کا جنوب مشرقی یورپ سے بھی تعلق ہے، جو دفاعی اور سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل خطّہ ہے۔یوکرین کا حالیہ بحران اب تک ذہنوں میں موجود ہے، جو اسی خطّے میں واقع ہے۔جس خطّے میں یہ دونوں مُلک واقع ہیں، اُسے’’ قفقاز‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ دفاعی لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اِس علاقے میں نیٹو اور روس کی فوجی کش مکش جاری ہے۔کبھی جارجیا کی جنگ ہوتی ہے، تو کبھی یوکرین کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔کریمیا پر روسی قبضہ ہوتا ہے اور کبھی نگورنو کارا باخ کا تنازع سَر اٹھا لیتا ہے۔

نگورنو کارا باخ کا تنازع کئی مرتبہ فوجی تصادم کا باعث بنا اور اس پر مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا، جس میں یورپی ممالک اور روس شامل تھے، تاہم بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔تُرکی کے آذربائیجان سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔یاد رہے، یہ اُن وسط ایشیائی ریاستوں میں سے ہے، جو روسی قبضے سے پہلے تُرک خلافت کا حصّہ تھیں اور ان میں تُرک نسل کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔اُدھر آرمینیا کے روس سے مضبوط تعلقات ہیں۔روس کا ایک فوجی اڈّا بھی وہاں موجود ہے، جب کہ روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصّہ ہیں، جسے’’ کلیکٹو سیکیوریٹی ٹریٹی آرگنائزیشن‘‘ (سی ایس ٹی او) کا نام دیا گیا ہے۔

نگورنو کارا باخ پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، جن میں تنازع بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔نگورنو کارا باخ انتہائی حسّاس اور فوجی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اِس خطّے میں سیاسی اور سفارتی توازن مختلف معاہدوں کی وجہ سے قائم ہے، جو اگر ذرا سا بھی بگڑ جائے، تو اسی قسم کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں، جیسے اِن دنوں دیکھنے میں آرہے ہیں۔ یہ علاقہ روس، چین، یورپ، امریکا، تُرکی اور ایران کے لیے دل چسپی کا حامل ہے اور شاید اِس وقت تو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہاں جنگ کے شعلے بلند ہوں۔

آذربائیجان خود کو سیکولر مُلک کہتا ہے، جہاں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی بحث نہیں، لیکن پھر بھی نگورنو کارا باخ کا معاملہ نسلی اور مذہبی بنیادوں پر لڑائیوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔حالیہ تصادم2016 ء کے تصادم کے بعد سب سے جان لیوا ثابت ہوا ہے۔درحقیقت، اِس طرح کے تنازعات پُرامن طریقوں ہی سے حل ہونے چاہئیں، کیوں کہ چھوٹے ممالک، جن کے عوام ابھی میعارِ زندگی کے اصل رنگ وانداز سے واقف ہی نہیں ہوئے، اپنی توانائیاں ان جھگڑوں اور لڑائیوں میں ضایع کردیتے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں روس کی غلامی کا بدترین دَور اور پس ماندگی دیکھ چُکی ہیں، جب ڈبل روٹی لینے کے لیے بھی لمبی قطاریں لگانی پڑتی تھیں۔انہیں آزاد ہوئے ابھی بمشکل پچیس سال ہوئے ہیں۔کہا جاتا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے بعد یہ خطّہ’’ لینڈ آف اپرچیونٹی‘‘ بنے گا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ ترقّی کی بجائے نت نئے تنازعات ہی سامنے آتے رہے ہیں۔

اِس خطّے کا موسم انتہائی سرد ہے۔ سال کے آٹھ مہینے شدید سردی پڑتی ہے۔اِسی لیے وسط ایشیا سے تعلق رکھنے والے حکم ران ایک زمانے میں ہندوستان کا رُخ کیا کرتے کہ یہاں کا موسم معتدل تھا اور اس میں روزمرّہ امور باآسانی انجام دئیے جا سکتے تھے۔یہ کوئی نظریاتی معاملہ نہیں، بلکہ جغرافیائی حقیقت ہے۔افغانستان بھی اِسی لیے آج تک اس مخمصے سے آزاد نہ ہوسکا اور خود اپنے اور پڑوسیوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو بہادری کے نام پر اُکسا کر ترقّی اور تعلیم سے محروم کیا گیا۔ایسا سوویت دَور سے پہلے بھی تھا، سوویت دَور میں بھی رہا اور آج بھی ہے۔روس اور تُرکی میں اِس وقت ایک طرح کی دوستی سی ہے۔ صدر اردوان اور صدر پیوٹن میں دوستی کا کُھلے عام اظہار ہوتا ہے۔

دونوں مُلک اِن وسط ایشیائی ریاستوں کے حلیف ہیں اور انہیں مالی، فوجی، سفارتی سپورٹ بھی دیتے ہیں۔تُرکی، یورپ کے اہم اور مسلم دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں شامل ہے، جب کہ روس بھی علاقے میں فیصلہ کُن قوّت کا حامل ہے۔تُرکی اور روس دونوں کا آذربائیجان اور آرمینیا سے صدیوں پرانا تعلق ہے۔ اِسی لیے وہ علاقائی مسائل دیگر کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔اگر یہ دونوں ممالک فیصلہ کرلیں کہ نگورنو کارا باخ کا مسئلہ حل کروانا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ جنگ میںملوّث فریقین اور دنیا اُن کا ساتھ نہ دے۔مشرقی یورپ میں نیٹو بہت فعال ہے۔ خاص طور پر یوکرین تنازعے کے بعد یہاں بہت زیادہ فوجی ساز وسامان لایا اور جدید نوعیت کے میزائل نصب کیے گئے ہیں۔

اسی طرح روس کی گزشتہ سالوں کی بڑی جنگی مشقوں پر نظر ڈالی جائے، تو ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا محور اور توجّہ کا مرکز جنوبی یورپ رہا۔ایشیا اور یورپ میں موجود یہ مُمالک، جہاں ایک خاص اہمیت اور تہذیب کے حامل ہیں، وہیں اُن کی سیاست بھی ایک خاص رنگ رکھتی ہے۔ اِسی لیے یورپ کے زیادہ تر طاقت وَر مُمالک ان تنازعات میں دِل چسپی لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ان مُلکوں کا یورپی تہذیب اور اسلام سے بہت پرانا ربط ہے۔تاہم، یہ کسی مذہب اور فرقے کی بجائے تہذیبی نوعیت کا معاملہ ہے۔ اِس لیے اسی سیاسی و تہذیبی پس منظر میں نگورنو کارا باخ کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی اسی راہ پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔