قوم پرست بمقابلہ مزاحمت کار

May 02, 2013

ملک میں عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں، انہیں سبوتاژ کرنے کی کارروائیاں بھی تیز ہورہی ہیں اور ان کے پیچھے سرگرم قوتوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ خیرپختونخوا میں طالبان جمہوریت کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں اور سیکولر پارٹیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ کراچی سمیت سندھ میں طالبان بھی ہیں اور بھتہ خور اور کرائم مافیا بھی موجود ہے۔ جبکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان سب کی پشت پر بعض غیرملکی طاقتیں ہیں جو پاکستان کے وجود پر ضرب لگاتا چاہتی ہیں۔ پنجاب فی الحال ان کی دستبرد سے بڑی حد تک بچا ہوا ہے لیکن کون جانے اگلے آٹھ نو روز میں کیا ہونے والا ہے۔ اس وقت ہم یہاں صرف بلوچستان کی صورت حال پر اظہار خیال کریں گے۔ بلوچ علیحدگی پسند جنہیں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد زیادہ منتظم ہونے کے لئے سازگار فضا ملی، اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مرتبہ صوبے میں عام انتخابات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز زیادہ تر وہی علاقے ہیں جو قوم پرست پارٹیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ 2008ء کے انتخابات کا قوم پرستوں نے بائیکاٹ کردیا تھا، اس لئے مسلح مزاحمتی تنظیموں کو یہاں پنپنے کا بہترین موقع ملا۔ اس بار قوم پرست پارٹیاں جو ماضی میں یہاں بھاری اکثریت سے جیتتی رہی ہیں انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں اس سے صورت حال بدل رہی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ علیحدگی پسندوں کا جوڑ قوم پرستوں سے پڑ گیا ہے۔ قوم پرست پارٹیاں بھی بنیادی طور پر علیحدگی پسندوں کی طرح صوبے کی کلی خودمختاری اور اس کے قدرتی وسائل پر یہاں کے عوام کا مکمل اختیار چاہتی ہیں۔ مگر مقصد کے حصول کیلئے دونوں کے طریق کار میں فرق ہے۔ علیحدگی پسند جو تعداد میں کم ہیں طاقت کے ذریعے پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں جبکہ قوم پرست پرامن جمہوری ذرائع سے پاکستان کے اندر اقتدار و اختیار کے خواہاں ہیں۔ علیحدگی پسند سمجھتے ہیں کہ جمہوریت پسند جنہیں اکثریت کی حمایت حاصل ہے کامیاب ہوگئے تو ان کی تحریک کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ اس لئے وہ اتنا خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں کہ یا تو حکومت مجبور ہوکر انتخابات ملتوی کردے یا ووٹر ڈر کے مارے پولنگ اسٹیشنوں پر ہی نہ جائیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے بہت پہلے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کا خیال دل سے نکال دیں ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں۔ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ اب تک نواب ثناء اللہ زہری (مسلم لیگ ن) سردار اختر مینگل ( بی این پی، مینگل) ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (نیشنل پارٹی) میراسداللہ بلوچ (بی این پی عوامی) سردار عمر گورگیج (پیپلز پارٹی) اور کئی دوسرے سیاسی و قبائلی رہنماؤں اور امیدواروں کے جلسے جلوسوں انتخابی دفاتر اور گھروں اور سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملے کرچکے ہیں۔ عدم تحفظ کی اس فضا میں امیدواروں کیلئے انتخابی مہم چلانا دشوار ہورہا ہے۔ علیحدگی پسندوں نے پورے صوبے میں پمفلٹ بھی تقسیم کئے ہیں جن میں لوگوں کو انتخابی عمل سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور 5سے 11مئی تک عام ہڑتال کرنے کیلئے بھی کہا ہے ان کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوکر سرکاری سکولوں کے 70ہزار اساتذہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ قلات نوشکی چاغی خاران مکران گوادر خضدار پنجگور تربت اور مستونگ سمیت بارہ حساس ترین اضلاع میں الیکشن ڈیوٹی انجام نہیں دینگے۔ان سب رکاوٹوں کے باوجود الیکشن ہو ہی جائیں گے۔ بلوچستان میں اس وقت درج شدہ ووٹوں کی تعداد 33لاکھ 36ہزار 659 ہے جو اہل ووٹروں کی اصل تعداد کے نصف سے بھی کم ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مزاحمت کاروں نے مردم شماری کی طرح ووٹوں کا صحیح اندراج بھی نہیں ہونے دیا تھا۔ صوبے میں خواتین بہت کم ووٹ کا استعمال کرتی ہیں عمومی رویہ بھی ووٹ ڈالنے کے معاملے میں زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور اب مزاحمتی تنظیموں کے ’سرمچاورں‘ کے حملوں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر انتخابی حلقے وسیع و عریض ہونے کی وجہ سے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے کے لئے لمبا سفر کرنا پڑتاہے۔ اس بار امیدوار انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں دے سکیں گے اس لئے کم لوگ ووٹ ڈالنے آئیں گے۔ ان وجوہات کی بناپر اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کی شرح پچیس تیس فیصد سے شاید زیادہ نہیں ہوگی۔ اس کا فائدہ نظریاتی پارٹیوں کو پہنچے گا یا سرداروں اوربڑی قبائلی شخصیات کو کیونکہ ان کے ووٹ ’پکے‘ ہوتے ہیں اور ووٹ ڈالے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ پچھلی اسمبلی کے بعض ارکان اپنی ”شاندار کارکردگی“ کی بنا پر اس بار ایوان میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ عام خیال یہی ہے کہ کوئی ایک جماعت اتنی سیٹیں حاصل نہیں کرسکے گی کہ تنہاحکومت بنائے اس لئے نئی حکومت بھی مخلوط ہی ہوگی۔ قوم پرستوں کو زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ہے اور توقع ہے کہ کوئی قوم پرست ہی وزیراعلیٰ بنے گا۔ مثلاً سردار اختر مینگل یا ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، اگر ایسا ہوگیا اور وفاق نے بھی بے اعتنائی نہ برتی تو ہوسکتا ہے ’ناراض‘ بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کا عمل واقعی شروع ہوجائے۔