اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (قسط نمبر10)

October 25, 2020

سیاہ آ ہنی ریلنگ سے گِھرا منبرو محراب والا حصّہ گویا اس سارے منظر نامے کی جان ہے۔ رنگین نقّاشی اور قرآنی آیات سے سجی دیواروں ، محرابوں کی تعمیری ساخت میں خاصی مہارت نظر آتی ہے۔کندہ کاری اور رنگ آمیزی کا وہ دل کش امتراج ہے کہ دیکھ کےزبان گنگ ہو جائے۔ان پر سایہ فگن گنبد اور گنبد کے مرکزی حصّے کی نقّاشی ،جیسے ایک خوب صُورت، خوش رنگ پھول کی پنکھڑیاں اپنے بخت پر نازاںہوں ۔؎کعبۂ اربابِ فن، سطوتِ دینِ مُبیں …تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں…ہے تہہ گردوں اگر حُسن میں تیری نظیر… قلب ِمسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں ۔اسی کے ساتھ تصوّر کی آنکھ وقت کی اُس سرنگ میں لے گئی، جب عین اسی جگہ وہ لافانی شاعر سجدہ ریز ہوا تھا۔

اپنے عشق سے کہیں زیادہ اُنہیں اِسے تعمیر کرنے والوںسے عشق محسوس ہوا تھا۔وہ عشق جو نہ عمارتوں میں تھا، نہ خلافتوں میں،وہ عشق جو حاصلِ زندگی تھا۔اُن کے لیے جنہوں نے تخت پر بیٹھنے اور سر پر تاج سجانے کے باوجود اس کے پتھر اُٹھانے اور اس کی مٹی کو آنکھوں کا سُرمہ بنانے کو اپنے لیے سعادت جانا۔یہ سعادت کِسی ایک نے نہیں بلکہ ہر ایک نے حاصل کی۔ عبدالرحمٰن اوّل سے عبدالرحمٰن سوم تک (بیٹے ،پوتے بھی شامل ہوئے) ہر ایک نے اپنا اپنا حصّہ ،جذبوں کے ساتھ ڈالا۔مَیں نےدائیں دیکھا ، بائیں دیکھا اورسیدھی زمین پر سجدہ ریز ہوگئی، پھر تو جیسے آنسوئوں کا فوّارہ پھوٹ پڑا۔

نہ گرد آلودزمین کا احساس،نہ گرد کے آنکھوں میں گُھسنے کا کوئی خوف۔ جب سر اٹھایا ،آنکھیں صاف کیں،اردگرد دیکھا، تو قریب کوئی نہیں تھا۔’’کیا کیمروں نے مجھے اپنی گرفت میں لیا؟‘‘ مَیں نے خود سے سوال کیا ۔’’نہیں لیا‘‘ وہاںبس مَیں اکیلی تھی اور دُور پھینی ناکوں والے جاپانیوں کا ٹولہ نظر آرہا تھا، جو تصویر کشی میں مصروف تھا۔اذان کی آواز تو یہاں گونجی تھی، جب وہ عظیم شاعر یہاں آیا تھاکہ جس نے نماز پڑھنے کے لیے حکومتِ برطانیہ سے خصوصی اجازت حاصل کی تھی۔جس کی جائے نماز صدیوں بعد محراب میں بچھی تھی، جس کا سر سجدے میں جُھکا ہوگا، تو یقینا ًاشکوں کا طوفان اُٹھا ہوگا۔میری آنکھیں گویا ہوس کے پھندے میں پھنس گئی ہیں اور ہل من مزید پر اصرار کرتی اور کہتی ہیں کہ’’ اللہ کے ننانوے نام تو دیکھ لو،اُن کا دیدار کرلو‘‘اور جب آنکھیں یہ سب چھوٹی بڑی جزئیات ایک ایک کرکے جذب کرنے میں مصروف تھیں۔ توپاگل دل پھر مچلنے لگا ،اُکسانے لگا ۔

مسجد قرطبہ کا بیرونی منظر

ایسا ہی ایک گرمیٔ جذبات سے لبالب بھرا ہنگامہ 21 نومبر1991ءکی شام یہاں محراب میں سجا تھا۔ساڑھے سات سو سال بعد یہاں مسلمانوں کی کوئی تقریب منعقد ہوئی تھی، جس میںیورپ میں بسنے والے عاشقانِ اقبال نے پوری دنیا سے اقبال کے سچّے عشّاق اکٹھے کیےتھے۔ اقبال فائونڈیشن نے یہاں قرطبہ کانگریس سجا ئی تھی۔آنے سے قبل ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی کی کتاب پڑھنے سے اس کی ساری تفصیلات سے آگاہی ہوئی تھی کہ وہ بھی اِس تقریب کے ایک مندوب تھے۔ کانگریس کے منتظم ِاعلیٰ، ڈاکٹر لامان جو فرانسیسی تھے اور اقبال کے سچّے عاشقوں میں اپنا نام لکھتے تھے، انہیں ویٹی کن سٹی جاکر پوپ پال سے اجازت حاصل کرنا پڑی کہ اسپین کے بشپ نے انکار کردیا تھا۔واہ !مسجدِ قرطبہ کے سچّے عاشق کی پذیرائی کس خوب صُورت انداز میں ہوئی۔

اب میرا دل کیسے نہ یہ چاہتا کہ غوطہ ماروں اور اس زنجیری حلقے کے نیچے سے نکل کر سیدھی محراب کی گود میں جا بیٹھوں اور اِس زمین پر ایک بار پھر سر رکھ دوں،مگراب کی باراردگرد لوگ تھے ۔ چلو اُن کی تو خیرصلّاہے، یہی کہتے ناں کہ’’ کوئی پاگل عورت ہے۔‘‘یا اگرتاریخ سے دل چسپی رکھنے والا کوئی ہوتا تو گوہر افشانی کردیتاکہ بھارت یا پاکستان سے ہوگی کہ ایسی جذباتیت اور پاگل پن کے دَورے انہی ملکوں کے مسلمانوں کو پڑتے ہیں۔نری کھوکھلی محبتیں اور عمل، صفر۔چلو خیر، ان کی مجھے کیا پروا تھی۔ڈر تو اُن نوجوان گارڈز کا بھی نہیں تھا، جوذرا بھی خوں خوار نظر نہیں آرہے تھے۔

وطن میں پڑھی گئی چند تحریروں کی یادیں کچھ خوف زدہ سی کرنے والی ضرور تھیں،مگر یہاں صورت بڑی معتدل سی محسوس ہوئی تھی۔تو کیا حرج تھا کہ جنگلے کے نیچے سے آگے چلی جائوں۔تاہم، رُک گئی کہ اگر کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو پاکستان بدنام ہوگا۔ ’’ نہیں ، نہیں،ایسی کوئی جذباتی حرکت نہیں کرنی جس سے پاکستان پر آنچ آئے۔‘‘ مَیں دل میں بڑ بڑائی۔ چلو ،اب اس کا جوحُسن سامنے ہے ، اس سے تو روح تروتازہ کرلوں۔داہنے ہاتھ وہ حصّہ تھا، جو اس برآمدے میں کُھلتا ، جہاں سے خلیفہ اپنے محل سے سیدھا مسجد میں آجاتا تھا،جو اب چرچ کا ٹریثری رُوم بنا ہوا ہے۔فانوس روشن تھے، جو یقیناً تب بھی جلتے ہوں گے۔ ہاں ، البتہ تب اللہ کے اس گھر کوبجلی سے نہیں، زیتون کے تیل سے منوّر کرتےہوںگے۔

رمضان کے مہینے میں ایک مومی شمع، جو وزن میں پچاس پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی،دن رات جلتی تھی۔ عود اور عنبر جلتا،ہرسُو خوش بوئیں پھیلی رہتیں۔مسجد کو چرچ نے یرغمال بنا رکھا ہے،چرچ بھی دیکھی۔شان و شوکت کا یہاں کچھ وہی عالم تھا کہ ساری برگزیدہ ہستیاں ہیرے جواہرات میں لپٹی نظر آرہی تھیں۔ اُس شاہانہ کرّوفرپر آنکھ نہیں ٹکتی تھی۔ایسا ہونا تو فطری امر تھا کہ جب یورپ بھر کے نام وَر فن کار احساسات و جذبات سے لدے پھندے یہاں آئے تھے اور برسوں تک اس میں فن کے موتی ،تارے ٹانکتے رہے۔ پھر کہیں دو ڈھائی صدیوں کی محنتِ شاقّہ نے اِسے یہ رُوپ دیاتھا۔ مگر اِس نے ایک عظیم فن پارے کو بھی نقصان پہنچایا ۔

دَراصل، سقوطِ قرطبہ کے فوراً بعد ہی مسجد میں چھوٹے چھوٹے چیپلزبننے شروع ہوگئے تھے۔ انہیں Saints کے ناموں سے منسوب کردیاگیاتھا،حدبندیاں بھی کر دی گئیں،(یہ تعمیرات زیادہ تر منصور والے تعمیری حصّے میں ہوئیں) مگر باقاعدہ کیتھڈرل تو چارلس پنجم کے زمانے میں بنا۔ تاہم، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کہیں بادشاہ کا گزر قرطبہ سے ہوا اور وہ مسجد دیکھنے چلا آیا۔یہ بھی روایت ہے کہ وہ چرچ کا افتتاح کرنے آیا تھاتوسکتے کی سی کیفیت میں آگیا۔ اس کے یہ الفاظ بھی تاریخ میں کہیں محفوظ ہیں۔ ’’تم نے ایک ایسا شاہ کار تباہ کردیا، جس کا بدل دُنیا میں ممکن نہیں۔ کاش !تم لوگ کچھ سوچ لیتے۔‘‘

جہاں عبدالرحمٰن اوّل،دوم ،ال حاکم اور منصور نے اس کی تعمیر سے لے کر وسعت دینے تک اور اسے خُوب سے خُوب تر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیاتھا،وہیں اِسے خوب صُورت اور حسین سے حسین تر بنانے میں بھی پورا زور لگا دیا گیا تھا۔پھر یوں ہوا کہ میرا اضطراب مجھے ٹکنے نہیں دے رہا تھا۔ مَیں سیما سے الگ ہوگئی کہ چلو اِس شتر بے مہار آرزو کی تکمیل کا کوئی سامان کروں۔بسا کہ آرزو خاک شدہ۔بہتیرا کونوں کھدروں کی تلاشی لی، مگر کوئی جگہ ایسی نظرنہ آئی،دل کو پھٹکارا،’’ جو مل گیا اُسے غنیمت جان۔مزید کی طلب میں بے حال نہ ہو۔‘‘۔پھر بینچ پر بیٹھ کر دعائیں پڑھیں،خُوب دعائیں مانگیںاور اقبا ل کا یہ شعر پڑھتے اُٹھی۔؎دیدئہ انجم میں ہے تیری زمین ، آسمان…آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذان۔

اُن خوب صُورت چہروں اورمسحور کُن آواز والیوں کو یاد کیا، جو فن کی دنیا میں طاہرہ سیّد اور ملکہ پکھراج کے نام سے جانی جاتی ہیں اور جنہوںنے اقبال کے عشق ، اُن کے درد کو اپنا سوز دیاہے۔اقبال کی دنیا سے باہر نکلی اور سیما کو ڈھونڈا، تو وہ دوسری جانب مسجد کا میوزیم دیکھ رہی تھی۔پھرمہرالنساء کی تلاش شروع ہوئی۔اندر تو کہیں نظر نہ پڑی،سوچا باہر ہوگی۔ باہر آئے، پوراصحن دیکھ لیا۔ برآمدوں میں نظریں دوڑائیںپر وہ تو کہیں نہیں تھی۔ دراصل ہم تینو ں پاکستانی اپنے دوپٹوں ، شلواروں سے دُور ہی سےبڑی نمایاں نظر آتی تھیں۔

مگر جانےوہ کہاں چلی گئی۔سیکوریٹی گارڈز کی منّت سماجت سے دوبارہ اندر گئی۔اب پاگلوںکی طرح آنکھیں پھاڑے یہاں ،وہاںلوگوں ،جگہوں، کونے کھدروں کو دیکھتی پھر ی کہ شاید وہ کہیں نظر آجائے،مگر وہ کہیں ہوتی تو ملتی۔ ایک چکر مرکزی دروازے سے باہر گلی کا اور دوسرا عقبی گلی کالگایا۔ دُکانوں میں بھی جھانکا،لیکن وہ کہیں نہیں ملی۔ عجیب بات تھی۔ ویسے ہم لوگوں نے تھوڑی کنجوسی بھی کی تھی کہ لوکل سِم نہیں لی تھی کہ وائی فائی سے توکام چل ہی رہاہے۔

میر ی پریشانی اور بد حواسیوں پر سیما نے جھنجھلاتے ہو ئے کہا ’’ فضول میں ہلکان ہو رہی ہو،وہ ہوٹل چلی گئی ہوگی۔‘‘’’کمال ہےسیما… کیسے گئی ہوگی وہ؟‘‘ ’’کیوں ٹیکسیوںکا کال پڑ گیاہے یہاں؟ اس کی جیب میں یورو نہیں ہیں کیا؟ کوئی دودھ پیتی بچّی ہے ، جس نے تمہاری انگلی پکڑ کر چلنا ہے۔ زمانہ کھاکھٹ بیٹھی ہے۔‘‘سیما مُصر تھی اور مَیں یقین کرنے سے مُنکر۔ سیما کی میرے اوپر لتاڑ بھی ساتھ ساتھ جاری تھی کہ ’’آخر ایسی مخبوط الحواس کے ساتھ تم چلتی کیسے ہو؟‘‘سچّی بات ہے، واقعی اس کے ساتھ چلنا بہت مشکل تھا۔

عجیب عادتوں کی مالک تھی، مگر میر ی بھی تو مجبوری تھی کہ اُس کا ساتھ مجھے میّسر تھا،جب اور جس وقت کہتی’’ بھئی ، فلاں مُلک چلنا ہے ،کہو پروگرام بنالوں؟‘‘ وہ’’ حاضر جناب‘‘ کا نعرہ لگاتی اور’’ چور نالوں،پَنڈ کاہلی‘‘ کے مصداق میرا ناک میں دَم کر دیتی کہ’’ اب چلو‘‘ یہ اور بات تھی کہ وہ اپنی بونگیوں اور ہٹ دھرمی سے میرے لیے سفر میں پریشانی اور اذّیت کا سبب بھی بنتی تھی۔سیما پچھلےسارے قصّے کہانیاں مجھ سے سُن چکی تھی اور اُسے صلواتیں سنانے کے ساتھ ساتھ میری بھی کلاس لے رہی تھی۔’’اُف گیارہ بج رہے ہیں۔آج کا سارا پروگرام غارت ہوتا نظر آرہا ہے۔‘‘مَیں جھنجھلائی ہوئی اِدھراُدھر تاکا جھانکی سے باز نہیں آرہی تھی۔ہائے! کہیں نظر آجائے،ہائے !کہیں آسمان سے گِرپڑے ، زمین اُگل دے۔اللہ ،کتنا کچھ دیکھنا تھا آج۔ ‘‘اب ٹیکسی لینے اور ہوٹل جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

ہوٹل کے اندر داخل ہونے اور کائو نٹر پر موجود لڑکوں سے یہ سوال کرنے کہ ’’ہماری ساتھی کمرے کی چابی تونہیں لے گئی؟‘‘ پوچھنے تک میری جان جیسے سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔دفعتاً ذرا سا رُخ بدلنے پر سامنے لائونج پر نظر پڑی اور مَیں جیسے ہکا بکّا سی وہیں چند لمحوں کے لیے ساکت ہوگئی ۔ منحوس ماری صوفے پر لیٹی موبائل کانوں سے لگائے کس مزے سے باتیں کر رہی تھی۔اُف! جی چاہا لِتّر اُتاروں اور مار مار کر حشر کر دوں،اس کا بھی اور اپنا بھی کہ مَیں کیوں اتنی کم عقل اور احمق ہوں کہ چیزوں کو سمجھتی ہی نہیں۔’’ مَیں نے کیا بکواس کی تھی؟‘‘ سیما نے مجھے یوں گھورا، جیسے کہتی ہو ’’تم بھی بڑی بونگی ہو۔‘‘ واقعی مَیںایسی ہی ہوں ۔

اب ہم دونوں اس کے سامنے صوفوں پر بیٹھی اُسے دیکھ دیکھ کر اپنا خون کھولارہی تھیں اور وہ تھی کہ جیسے ہمیں جلانے، تڑپانے اور زِچ کر نے پر تُلی بیٹھی تھی۔بے نیازی سے پاکستان میںفون پر کسی سے باتوں میں مگن تھی۔ مجھے واش روم جانے کی حاجت تھی ۔واپس آئی تو دیکھا کہ وہ لال پیلی میرے اوپربرس رہی ہے۔’’ہاں ،اس نے میرے ساتھ ماسکو میں ایسے ہی کیا۔یہ مجھے ہمیشہ ذلیل کرتی ہے۔ ‘‘ میرے لیے سب سے زیادہ تعجب انگیز رویّہ سیما کا تھا، جو بیٹھی نہ صرف اُسے سُن رہی تھی، بلکہ چہرے کے تاثرات سے اُس کی ہم نوائی کرتی بھی محسوس ہورہی تھی۔ سچّی بات ہے ،میرا تو وہ حال تھا،جیسے تلووں لگی اور سر پر چُھوٹی۔

پہلے تو سیما پر برسی ’’یہ تُو کیا منافقوں اور پھاپھا کُٹنیوں والے کام کررہی ہے۔ ابھی آدھا گھنٹا پہلے اسے لیر لیر کر رہی تھی ۔ اب حق سچ کی بات کہنے کے بجائے منہ میں گھنگنیاں ڈال لی ہیں ۔ پوچھ تو سہی، اس سے کہ یہ وہاں سے آئی کیوں؟‘‘آوازیں اونچی ہوئیں تو سوچا کہ دنگل کمرے میں چل کر لگاتے ہیںکہ یہاں غیر مُلکیوں کو بغیرٹکٹ تماشا کیوں دِکھائیں۔ کمرے میں آکر مَیں نے جی بھر کر مہرالنساء کو سُنائیں اور ساتھ سیما کی بھی تواضع کی ۔ بول بول کر ہم سب ہپو ہان ہوگئیں۔ سیما نے تو خیر فوراً پینترا بدل لیا تھا۔پھر تینوں اپنے، اپنے بیڈ زپر لیٹ گئیں۔

تھوڑا غصہ اُترا تو سوچا کہ کہنے کو تو مَیں نے کہہ دیا کہ’’ بھاڑ میں جائو تم لوگ، اپنا اپنا سیر سپاٹاخود کرو۔ چاہے ہوٹل کی منجیاں توڑو یا قرطبہ کی گلیاں ناپو۔ سب عاقل،بالغ زمانہ ہنڈائی ہوئی ہو،کوئی میری محتاج نہیں اور نہ مَیں کسی کی۔‘‘پر اب یہ کتنی کم ظرفی ہو گی کہ میری تو موجیں ہوں ، مگر سیما،جو بیساکھیوں کے سہارے چلتی ہے اور دوسری والی بھی ایسی ہی ہے، تو ان کی سیر کھوٹی ہو جائے۔ ’’چل ، دل بڑا کراوراپنی مَیںکو مار۔‘‘پھرکچھ ڈھیل سیما نے دِکھائی ،توکچھ مَیں نے اور اس بے وقوف کو اُٹھایا اور تین گھنٹے کے ضیا ع کے بعد دوبارہ قدیمی حصّے پہنچ گئے۔ (جاری ہے)