شہر افسوس اور ہم

October 21, 2020

’’ترقی پسند سوچ‘‘ یہ الفاظ، پروفیسر منظور کی موت کے بعد شاید ختم ہو گئے کہ اُنہوں نے جس طرحشاہ حسین کالج کی بنیاد رکھی، وہ لازوال کام تھا۔ 94سال کی عمر میں اُنکے انتقال کے بعد بچے کھچے لبرلز (جنکی بڑی دنیا مخالف ہے) شجاع اللہ کو بھی اِس دن یاد کیا کہ وہ انسانی حقوق کے پاکستانی ادارے کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ بقول خالد حسن، اُن سے بہتر انگریزی لکھنے والا نظر نہیں آتا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ چھ دن سے خوار ہوتی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کا سیاپا، کھلے میدان میں جاری رہا، وزیر آکر وہی فقرہ کہتے کہ آپ گھروں کو جائیے، آپ کا گلہ دور ہو جائیگا، وہ زور سے چیخ کر کہتیں ’’یہ تو 2برس سے سن رہے ہیں‘‘، آپ حل کریں۔ کیا انکی توقیر ٹائیگر فورس جتنی بھی وزیراعظم کے نزدیک نہیں ہے۔ خواتین وزرا کیوں سوئی رہیں؟ کم ازکم شیریں مزاری کو تو انکے لئے کھڑا ہوناچاہئے تھا۔

افسوس اس بات پر ہے کہ گوجرانوالہ کا جلسہ بہت ٹھیک تھا مگر بتائیے، سربراہان 10بجے، 11بجے اور 12بجے کیوں پہنچے؟ کیا کھلے میدان میں عوام ٹھنڈ میں 12بجے تک اُنکی آمد کے منتظر رہتے؟ جلسے کا وقت 8بجے تھا۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اُس وقت جب آپ عوام کی توقیر بھی کریں۔ پھر ملک کو درپیش مسائل سے پردہ اٹھانے اور بیان کرنے کی ذمہ داری، ایک خاتون لیڈر پہ ہی کیوں ڈال دی؟ مولانا صاحب نے، معافی چاہتی ہوں مگر جس بددلی سے تقریر کی وہ اُن کے شایانِ شان نہیں تھی۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ اِدھر طالبان اور افغانوں کے درمیان صلح کی باتیں ہیں اور اُدھر روز ہمارے جوانوں کو مارنے والے کون ہیں؟ روز بروز ایسے المناک واقعات میں خاص کر بلوچستان اور وزیرستان ضلع خیبر پختونخواجانے والے سامان پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔ ہمارے بچے، فوجی جوان روز شہیدہو رہے ہیں۔ آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟

افسوس یہ کہ مولیوں کا گٹھا جو سردیوں میں 5روپے میں مل جاتا تھا۔ اب بازار میں 200روپے کلو مل رہی ہیں۔ میتھی جو سردیوں کی خوراک ہے، وہ ایک گٹھی 100روپے کی۔ ڈبل روٹی تین ماہ میں 50روپے سے 80روپے کی ہو گئی ہے۔ پہلے سبزیاں تین سو روپے میں ہفتے بھر کی آجاتی تھیں، اب ہزار روپے میں بھی نہیں آتیں۔ اِدھر وزیراعظم کہتے ہیں کہ میرا گزارا، تنخواہ میں نہیں ہوتا۔ یہ سن کر غصہ نہیں آتا، پچھتاوا ہوتا ہے کہ جسکو لوگ دیوتا بناکر لائے تھے وہ تو ہمارے بیٹے شبلی فراز کو بھی لے ڈوبا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری کارکردگی کا ریویو جو دنیا کے معاشی ادارے کررہے ہیں، پاکستان میں اسکا ذکر ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سنبھل کر چلتے رہے تو 2025تک اسی 6.5فیصد ترقی پر پہنچ سکیں گے جو دو سال پہلے تھی۔

افسوس کہ پہلے افغان پٹھان آکر زمین پر ڈھیر لگاکر ڈرائی فروٹ بیچا کرتے تھے، ہم جیسے مسکین اُن سے خرید کر سردیوں کا میوہ کھا کر خوش رہتے تھے۔ اب بھی ڈھیریاں لگاکر بیٹھے ہیں مگر کیا ذکر اخروٹ یا کشمش کا۔ مجھے ایک میل آئی ہے کہ میں تو بٹر خریدنے گئی تھی، ایک چمچ لیکر واپس آگئی ہوں۔ گویا قیمتوں کی آفت تیسری دنیا میں ہے۔ یہ کورونا کی عنایت ہے کہ غریب ملکوں کی قسمت؟ افسوس اِس بات کا ہے کہ ساری دنیا میں لوگ سنڈے مارکیٹ، یا قومی دن منانے کے لئے گلیاں، بازار بک کراتے ہیں مگر مقرر کردہ وقت میں ختم کرکے جگہ صاف کرکے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جلسے کرنے والے جلسے کرکے، ہر طرح کا گند ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کہا گیا 8بجے جلسہ شروع ہوگا اور لیڈران 12بجے پہنچے، عوام کو اِس سے زیادہ ذلیل کیا جا سکتا ہے؟ مگر پھر بھی بہتر ہے کہ ایک شہر میں عمران خان تقریر کرنے آئے تو جلسے کے مہمان ایک ایک کرسی لے گئے۔ مالِ مفت، دل بےرحم۔ یہ واقعہ دو سال پرانا ہے مگر ابھی تک ہر جلسے کے بعد گڑبڑ ہونا تو لازمی ہے۔

افسوس یہ ہے کہ امریکی الیکشن ابھی ہوئے نہیں کہ ٹرمپ نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر میں ہار گیا تو امریکہ چھوڑ جائوں گا۔ یہ اُس نے شاید پاکستانی سیاست دانوں اور افسروں سے سیکھا کہ ہر ایک کے خاندان کے ایک نہ ایک فرد نے اپنا اڈہ، پیر جمانے کے لئے بنایا ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے پاس تو اتنا پیسہ ہے کہ اس نے پچھلے دنوں پاکستانی ہوٹل جو ہم سے نہیں چلتا، خریدنے کی پیش کش کی، کیا خبر خرید بھی لیا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ قائد کے مزار کو زیر بحث لایا جارہا ہے کہ وہاں کیا ہو سکتا ہے ،کیا نہیں؟ خدا کے لئے انکو تو بخش دیا کرو کہ والپورٹ نے انکی بائیو گرافی لکھتے ہوئے، وہ ایک صفحہ بددلی سے سہی مگر نکال دیا تھا۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ سرمایہ دار، بڑی بڑی بلڈنگیں بنا لیتے ہیں جبکہ کسی فلور پر بھی آگ بجھانے والی اشیا کا وجود نہیں ہوتا۔ یہ کام کون چیک کرے، مالکان کہ شہری حکومت؟ بہرحال یاد ہے کہ پنڈی میں ایک پلازہ میں تین دن بعد آگ بجھی، صرف راکھ کا ڈھیر تھا اور یہی حال لاہور میں حفیظ سینٹر کا ہوا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی قابلِ اعتماد رہنما ہی نہیں، سب کے ڈھول پھٹ چکے ہیں۔ اچھا ہی ہوا کہ ہمارے ملک کی تاریخ نہ لکھی گئی اور نہ پڑھائی جاتی ہے کہ آنے والی نسلوں کے سامنے اِن سب کے کھاتے کھلنے کے بعد، انکی رہی سہی کیا خراب ہوگی کہ عزت کا لفظ تو سب کے لئے بیکار ہے۔ ٹائیگر فورس کے نام پر بےکار لوگوں کو اچھل اچھل کر حزبِ مخالف کے ناموں پر تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا اور پھر ڈپٹی کمشنر کی خبر پڑھی کہ ٹائیگر فورس والے، ڈی سی سے اسلام آباد جانے کے لئے ٹکٹیں مانگ رہے تھے۔ ہزاروں کے اِس کنونشن سینٹر میں کیسے لوگ بھرے گئے؟ ٹکٹیں ہی نہیں پھر تو دیگیں بھی چڑھی ہوں گی۔ خیر یہ اندازہ ہوا کہ شہر میں سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔