پاکستان کے مسائل کی جڑ؟

October 22, 2020

درویش کی اپنے پاکستانی معاشرے سے یہ شکایت ہے کہ وہ کبھی پورا سچ بیان نہیں کر سکا حالانکہ تمنائیں اور اُمنگیں ہر روز دل کی دہلیز پر بیٹھی اِس کیلئے اکساتی اور ہمت بندھاتی ہیں اور کبھی کبھی حوصلہ کرتے ہوئے اِس ناتواں کاوش کا اہتمام بھی کیا ہے۔ کچھ برس قبل ایک ایسی ہی جسارت کی تو معلوم ہوا کہ یہ تو خودکش حملہ ہے کیونکہ ہلکی سی جرأت دکھانے پر جو بھاری قیمت ناچیز آج کے دن تک چکا رہا ہے یا چکانے پر مجبور کر دیا گیا ہے، اُسے شامی صاحب جانتے ہیں یا پھر درویش کے گھر والے۔

خاکسار کس باغ کی مولی ہے، یہاں تو میڈیا کا ہرا بھرا گلستان ہی خزاں رسیدہ و ویران ہو چکا ہے۔ ابن الوقت بن کر خوشامد نگاری سے بہتر ہے کہ انسان دھوکہ دہی کے بجائے کوئی اور ڈھنگ کا کام کرلے۔ مزاحمت کی راہ چھوڑ کر کم ظرفی پر آمادہ تو وہی ہو سکتا ہے جو بےضمیر یا مردہ ضمیر ہو لہٰذا عافیت اِسی میں ہے کہ اگر صیاد سے لڑائی کے قابل نہیں ہو تو پھر راستہ بدل لو۔ وقتی و ہنگامی طور پر دیگر شعبہ جات و مسائل کو اپنے موضوعات بنالو۔ اِس لئے کہ ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ لیکن ساتھ ہی ضمیر صاحب یہ طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں کہ

گریز کشمکشِ زندگی سے، مردوں کی

اگر نہیں ہے شکست تو اور کیا ہے شکست!

سچائی تو یہ ہے کہ آپ اپنے منہ جتنے مرضی میاں مٹھو بنیں، جیسے مرضی بلند بانگ دعوے کریں لیکن اِس سے تلخ زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ طفل تسلیوں کے ساتھ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن پوری دنیا کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ دنیا ہمیں آزاد، مہذب قوم کی حیثیت سے نہیں دیکھتی، وہ ہمارا شمار نارتھ کوریا جیسی گھٹن زدہ قومیتوں کے ساتھ کرتی ہے۔ یہاں اس وطنِ عزیز میں کمزوروں پر ہاتھ اُٹھانا، اپنی بچیوں کو قتل کرنا، اقلیتوں اور دبے ہوئے طبقات کے کمزور افراد کی زندگیوں اور عزتوں سے کھیلنا غیرت کہلاتا ہے جبکہ غنڈوں اور طاقتور بدمعاشوں کے سامنے سرنگوں ہوجانا دانشوری و دانشمندی ہے۔ بلاشبہ پہاڑ سے سرٹکرانا عقلمندی نہیں لیکن بند گلی دیکھ کر مایوسی و نااُمیدی کے ساتھ سرنڈر کرتے ہوئے گر پڑنا بھی جوان مردی نہیں۔ ایسے مشکل حالات میں بہتر رستوں کی تگ و دو اور جہدِ پیہم ہی زندگی کی علامت ہے ورنہ مردہ قوم ہی مردہ افراد سے کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ افراد کی طرح اقوام پر بھی بڑے بڑے مشکل وقت آتے ہیں، اگر وہ عزم و ہمت سے کام لیں، جہالت و جذباتیت کی بجائے شعور و حکمت کا مظاہرہ کریں تو دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں باوقار اور مہذب مقام حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔

اس سلسلے میں جرمنوں، جاپانیوں اور بنگالیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جبر، جبر ہوتا ہے، چاہے اپنوں کا ہو یا غیروں کا، اِن ہر سہ اقوام کو جب جبر کی مسلح اپنی یا غیرطاقت نے کچلا تو وہ مایوسی کے گڑھوں میں گرنے کی بجائے ہمت سے کام لیتے ہوئے ظلم، بےانصافی اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ آج وہاں آئین و قانون کی عملداری ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کی سربلندی کے ساتھ قومی وقار اور معاشی ترقی و خوشحالی پوری دنیا کو صاف دکھائی دے رہی ہے۔ وطن عزیز کا اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، کرپشن، لاقانونیت، جہالت، نفرت، نظریاتی انتہا پسندی، جنونیت، دہشت گردی؟ بیرون ملک سے آنے والا ہر پاکستانی کیوں یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ دنیا میں ہمیں کہیں کوئی منہ لگاتا ہے، نہ گھاس ڈالتا ہے۔ ہمارا روپیہ اِس قدر ٹکا ٹوکری ہو چکا ہے کہ بنگالیوں کا ٹکا ہم پر بھاری ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش رہے ایک طرف آج بدعملی کی گراوٹ یہ ہے کہ مصائب کے مارے افغانستان اور چھوٹے سے ملک نیپال کی کرنسی بھی روپے کے بالمقابل معتبر اور طاقتور ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ اِس کی وجہ کیا ہے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ 1947میں خطے کی تقسیم ضرور ہوئی مگر مغربی ہند کے اِس خطے میں بسنے والے کروڑوں عوام کو اقتدار کی منتقلی آج تک نہیں ہو پائی۔ 1947سے قبل بھی ہم طاقت کے غلام تھے اور گزشتہ سات دہائیوں سے بھی ہم محض طاقت کے ہی غلام چلے آ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تقسیم سےقبل ہم سفید چمڑی والوں کے غلام تھے جن کی کچھ تہذیبی، آئینی اور جمہوری اقدار تھیں جبکہ 47کے بعد جس طاقتور کی غلامی و سیاہی کے شکنجے میں ہم جکڑے گئے ہیں۔ اُسے معلوم ہی نہیں کہ اقدار اور حریتِ فکر کونسی بلائیں ہیں؟ پاکستان کا اصل ہیرو، مسیحا یا قومی قائد وہ شخص کہلائے گا جو غلام عوام کو غلامی کی اِن بوجھل زنجیروں سے آزاد کروائے گا۔ اے سنتے کانو اور دیکھتی آنکھو! وقت کی آواز کو پہچانو، اپنی تقدیر بدلنے کیلئے اُٹھو اور یہ عہد کر لوکہ زبانِ خلق ہی نقارہ خدا ہوتی ہے۔ اگر ہم نے دنیا میں باوقار، مہذب قوم کا مقام حاصل کرنا ہے تو پھر تجدیدِ عہد کرو کہ طاقت کا سرچشمہ کوئی اور نہیں، اِس ملک کے بائیس کروڑ عوام ہیں۔ عوام کی رائے اور مرضی پر ڈکیتی ہی اصل ڈکیتی، چوری اور کرپشن ہے۔ ٹہنیوں کو نہیں، برائی کی جڑ کو کاٹو۔ طاقتور زہریلی جڑ کو تلف کرو اور یہ حلف اٹھائو کہ صرف آئین اور آئین کی پاسداری ہی ہماری قومی سلامتی و یکجہتی کی علامت ہے۔ پاکستان کا تقدس، آئین اور اِس کو تشکیل دینے والی پارلیمنٹ ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان اصل مقتدر ادارہ ہے۔