انتخابی مہم اور بھٹو فیکٹر

May 03, 2013

گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں بھٹو فیکٹر اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید اور ان کی جانشین محترمہ بینظیربھٹو شہید گڑھی خدابخش میں مدفون پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اشتہارات اور مختلف ٹی وی چینلز پر بھٹو شہید کی تقاریر نے پارٹی کارکنوں میں نیا ولولہ پیدا کردیا ہے۔ ایک اہم عہدے پر فائز ایک باتونی نے یہ کہا تھا کہ ”اب ہمارا دور ہے، بی بی کا دور ختم ہو چکا ہے“۔ ایسے باتونی حالیہ انتخابی مہم میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ ذرائع ابلاغ میں پیپلزپارٹی کی چلائی جانے والی مہم دراصل بی بی شہید ہی چلا رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حامی اس بار بھی اپنا ووٹ پی پی پی کو دیں گے۔ پہلے بھی بی بی شہید کی بدولت اقتدار ملا تھا اور اب بھی بی بی شہید اور بھٹو شہید کے طفیل انتخابی کامیابی ملے گی۔ تاریخ اس طرح مرتب ہوگی کہ دونوں شہید قائدین اپنے اپنے مزاروں سے حکمرانی کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہر نوع کے بحرانوں کا سامنا کامیابی سے کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے عوام کی خدمت اور ریاست کے استحکام کیلئے جو پالیسی اختیار کی مخالفین نے اس کے خلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی ہمیشہ کوشش کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی شعور ان پالیسیوں کی حمایت کرتا رہا۔ یوں جو لوگ پارٹی کو غیرمقبول قرار دینے کا جھوٹ بولتے رہے ان کو اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب عوام نے پھر سے پی پی کے حق میں ووٹ دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی پالیسیوں میں وہ وعدے جھلکتے ہیں جو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید نے اپنے محروم لوگوں سے کئے تھے۔ پاکستان اسٹیل ملز عوام کی ملکیت ہے‘بھٹو خاندان کی فاؤنڈری نہیں۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس عوام کی ملکیت ہے یہاں سیاسی حامیوں کا کنٹرول نہیں۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات عوام کی خواہش کے مطابق استوار کئے گئے‘ ذاتی کاروباری مجبوری کے تحت نہیں۔ اسی طرح ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے پر معاہدہ بھی ان کروڑوں پاکستانیوں کے لئے امید افزا ہے جن کے روزگار اور چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بعض پارٹی رہنماؤں نے ورکروں کو مایوس کیا اور ان سے رابطہ نہ رکھا اس طرح ان لوگوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی بھی کوئی خدمت نہ کی بلکہ قیادت کے لئے پریشانی کا سبب بنے۔ کارکن جب کبھی شہید بھٹو اور شہید بی بی کی تصویر کو سامنے دیکھتے ہیں تو وہ نئے جذبے اور جوش سے پارٹی کے لئے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔
بہت سے باتونیوں کو شاید اس بات کا احساس تک نہ ہو کہ23مارچ کو بیگم نصرت بھٹو کی سالگرہ پر پنجاب کے کسی اہم پارٹی لیڈر نے ان کی خدمات کے ضمن میں ایک لفظ تک ادا نہ کیا اور قبرستان کی خاموشی کی طرح یہ دن گزار دیا۔ حالانکہ اسی لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ان پر تشدد کرکے ان کا سر لہولہان کردیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کی جمہوریت کیلئے ناقابل فراموش خدمات ہیں اور گزشتہ سال ہی انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ”نشان پاکستان“ دیا گیا تھا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اس عظیم خاتون رہنما کو ایک سال بعد ہی فراموش کردیا گیا۔ بعض حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ پارٹی کو ختم کیا جا رہا ہے اور پہلی بار بھٹوز کے بغیر انتخابات ہو رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بار بھی انتخابی مہم بھٹو شہید اور بی بی شہید ہی چلارہے ہیں۔ دراصل پارٹی کے شہید قائدین عوام کی محبت اور ملک سے وفاداری کی علامت ہیں جب تک محبت اور وفاداری کے جذبات دنیا میں موجود رہیں گے ان علامتوں کو سلام پیش کرنے والے بھی موجود رہیں گے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مشکل حالات اور باتونیوں کے طرزعمل کے باوجود پارٹی ورکر اپنی روایت کے مطابق الیکشن میں بھرپور حصہ لیں گے اور ووٹ ڈال کر اپنے شہید رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔
دہشت گردی سے مقابلہ‘ معاشی چیلنجوں اور ہمسایہ ممالک سے بگڑے تعلقات نے حکومت پر مسلسل دباؤ رکھا۔ سیاسی اتحادیوں کے ایجنڈے کو قومی ایجنڈے کے سامنے سرنگوں کرنا اور اپوزیشن کو پوری آئینی آزادی فراہم کرکے پیپلزپارٹی نے اگرچہ اپنے لئے کئی خطرات مول لئے لیکن صدر آصف علی زرداری نے مشکل ترین حالات میں قائد عوام شہید اور دختر پاکستان بی بی شہید کے ورثے کو محفوظ رکھا اور ان کا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے بی بی کی مفاہمت پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ جمہوری اقدار کو تحفظ فراہم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ یوں محترمہ شہید نے اپنی وصیت میں ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا تھا اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ بی بی شہید کے صاحبزادے اور قائد عوام کے نواسے بلاول بھٹو زرداری کا یہ اعلان کہ وہ اپنی والدہ کے مشن کی خاطر کسی قربانی سے گریز نہیں کریں گے، قربانیوں کی داستان رقم کرنے والے خاندان کی جرأت مندانہ آواز ہے۔
بی بی اور بھٹوز کے نام پر الیکٹرانک میڈیا پر پُرسوز نغمے درحقیقت بی بی کے زندہ و جاوید ہونے کا اعلان ہیں۔ ان کی آواز میں ان کی زندہ تقریریں براہ راست عوام سے مخاطب ہیں کہ آ پ تیر کو ووٹ دیں۔ ٹی وی پر ان کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ بی بی شہید ملک کے چپے چپے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم چلارہی ہیں اور اپنے کارکنوں اور غریب عوام کے دلوں کو استحصالی قوتوں کے خلاف گرما رہی ہیں۔
بی بی اپنی تقریروں کے ذریعے بھٹو خاندان کے ازلی مخالفین کے خلاف اس طرح سینہ سپر ہیں جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ان سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کا مقابلہ کیا تھا۔
بی بی شہید کی ان تقریروں کو سن کر ان کی یاد میں ہر دردمند کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور کارکنوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی مارشل لا کے خلاف تاریخی تقاریر اس دور کی یاد دلاتی ہیں جب جبر، تشدد، اذیت، زبان بندی سکہ رائج الوقت تھے اور انہوں نے اپنے اوپر ہر قسم کا ظالمانہ سلوک حوصلے اور ہمت سے برداشت کرنے کی ایک بلاشبہ مثال قائم کرکے اپنی جان کی قربانی دی۔ انہوں نے پھانسی کی کوٹھڑی سے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ”میں قبر سے بھی حکومت کروں گا“۔ بلاشبہ آج قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید اور ان کی جانثار بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنی قبر سے ملک کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔