روٹی، کپڑا اور مکان، انسان کی معاشرتی زندگی کے تین بنیادی جزو ہیں جبکہ تعلیم و صحت اور آزادی اظہار وہ اصول ہیں، جو انسان کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کرہ ارض کی فطری کج ادائی و کرختگی کو ماحول دوست، کشادہ، خوبصورت اور دیدہ زیب مکانات کے آرکیٹیکچرل ڈیزائن میں ڈھال کر ذہنی سکون اور اطمینان قلب عطا کر کے بہتر زندگی سے سرشار کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی مکان کی خوبصورتی و دل آویزگی مکین کے ذوق جمالیات کی عکاس ہوتی ہے۔
عمارتیں ڈیزائن کرنے کا ایک باقاعدہ علم ہے، جس میں آرکیٹیکچر کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ آرکیٹیکچر ہمیں طرزِ تعمیر کا بھی پتہ دیتا ہے۔ جب آرکیٹیکچر کی بات کی جاتی ہے تو اس میں مغل طرزِ تعمیر بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس ہو یا بکنگھم پیلس، عرب بادشاہوں کے شاہی محلات ہوں یا یورپ کی پرشکوہ تعمیرات، آپ کو ایک بھی ایسی عمارت نہیں ملے گی جو مغل طرز تعمیر کی جھلک سے خالی ہو۔
مغل طرز تعمیر میں فارس، ترکی، وسطی ایشیا، گجرات، بنگال، جونپور اور جنوبی ہند کے طرز تعمیر کو مرکب شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام مغل طرز تعمیر ہے۔ ماہر تعمیرات پیرسی براؤن نے برصغیر میں فن تعمیر کا موسمِ بہار مغل دور کو قرار دیا ہے جبکہ ساری دنیا کے طرز تعمیر پر تبصرہ کرنے والے اسمتھ نے مغل فن تعمیر کو ’’آرٹ کی رانی‘‘ نام دیا ہے۔ مغلوں نے بڑے بڑے محلات، باغات، قلعے، دروازے، مساجد و مقبرے وغیرہ تعمیر کروائے۔ انھوں نے ایسے باغ بنوائے جن میں جھرنے اور چشمے تھے۔ انھوں نے محلاّت اور دیگر عیش و آرام والی عمارتوں میں بہتے پانی کی نہریں جاری کیں جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
اس دور کی تعمیرات کی ابتدا فتح پور سیکری سے ہوتی ہے، ان کا نقطۂ عروج شاہ جہاں کے عہد میں دکھائی دیتا ہے۔ مغل دور میں فن تعمیر کے میدان میں پہلی بار سائز اور ڈیزائن کا مختلف انداز میں استعمال ملتا ہے۔ سجاوٹ کے لئے سنگ مرمر پر نقش و نگار اس دور کی خاصیت ہیں۔ اس دور میں رنگ برنگی پھول پتیوں کا بھی بے حد دلکش استعمال کیا گیا۔ اس دور میں گنبد اور ٹاورز کو ’کلش‘ کے ساتھ سجانے کا رواج بھی چلا۔
مغلیہ دور کی تعمیرات میں اکبر کا مقبرہ، ہمایوں کا مقبرہ، نورجہاں و جہانگیر کے مقبرے (لاہور، پاکستان)، تاج محل، اعتماد الدولہ کا مقبرہ، اورنگزیب کا مقبرہ (اورنگ آباد)، فتح پور سیکری اور اس کے محلات، آگرہ کا قلعہ اور اس کی عمارتیں، دہلی کا لال قلعہ اور اس کی عمارتیں، دلی کی جامع مسجد، فتح پوری مسجد، لاہور کا شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ہزاروں عمارتیں مغل عہد میں تعمیر ہوئیں جن میں سے کچھ کو بادشاہوں نے بنوایا تو کچھ کی تعمیر شاہی خاندان کے دیگر افراد، امراء اورورثاء نے کروائیں۔ ان میں سے بیشتر عمارتوں کا وجود اب باقی نہیں مگر جو باقی ہیں، وہ مغلوں کے ذوقِ تعمیر کی داستان بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔
دیگر کئی کارناموں کے ساتھ ساتھ، اکبر بادشاہ کی تعمیرات کو ان کی ہندو، مسلم مخلوط طرز تعمیر کے لیے جانا جاتا ہے۔ ابو الفضل نے اکبر کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’شہنشاہ خوبصورت عمارتوں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اپنے دل و دماغ کے خیالات کو پتھر اور گارے کی شکل دے دیتا ہے‘‘۔ اکبر پہلا مغل شہنشاہ تھا، جو بڑے پیمانے پر تعمیرات کے لئے وقت اور وسائل رکھتا تھا۔ اس نے بہت سے قلعے بنوائے، جن میں سب سے مشہور آگرہ کا قلعہ ہے۔ سرخ پتھر سے بنے، اس قلعے میں بہت سے بڑے بڑے دروازے ہیں۔
1572ء میں اکبر نے آگرہ سے 36کلومیٹر دور فتح پور سیکری میں قلعہ نما محل کی تعمیر شروع کروائی، جو آٹھ برس میں مکمل ہوا۔ پہاڑی پر آباد اس محل میں ایک بڑی مصنوعی جھیل بھی تھی۔ اس کے علاوہ اس میں گجرات اور بنگال کے انداز میں بنی کئی عمارتیں تھیں۔ ان میں گہری گپھاؤں اور چھتریوں کے علاوہ جھروکے بھی تھے، جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں۔ ہوا خوری کے لیے بنائے گئے پنچ محل میں شاندار ستون نظر آتے ہیں جو چھت کو سہارا دیتے ہیں۔
اکبر کے دور حکومت کے آغاز میں دہلی میں تعمیر ہمایوں کا شاندار مقبرہ ہے، جس میں سنگ مرمر کا بہت بڑا گنبد ہے۔ اسے تاج محل کا مقدمہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک خاصیت دو گنبدوں کا استعمال ہے۔ بڑے گنبد کے اندر چھوٹا گنبد بنا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں آس پاس باغات بھی ہیں۔ اس کی تعمیر اکبر کی ماں حاجی بیگم نے کروائی تھی۔
اس کے علاوہ جہانگیر کے دور حکومت کے آخر تک ایسی عمارتوں کی تعمیر کا آغاز ہو گیا تھا، جو مکمل طور پر ماربل سے بنتی تھیں اور جن کی دیواروں پر قیمتی پتھروں سے نقاشی کی جاتی تھی۔ یہ انداز، شاہ جہاں کے دور میں اور بھی مقبول ہو گیا تھا۔
مساجد کی تعمیر
مغل طرزِتعمیر کی بات کریں تو شاہ جہاں کے دور حکومت میں مسجدوں کی تعمیر کا فن بھی اپنے عروج پر تھا۔ اس دور کی دو سب سے خوبصورت مساجد ہیں۔ آگرہ قلعے کی موتی مسجد، جو تاج محل کی طرح مکمل سنگ مرمر سے بنی ہے اور دہلی کی جامع مسجد، جو سرخ پتھر کی ہے۔ جامع مسجد کی خصوصیات میں اس کے بہت بڑے بڑے دروازے اور گنبد ہیں۔ شاہجہان کے دور حکومت کو تعمیراتی لحاظ سے سنہرا دور کہا جاتا ہے، جب عجائب روزگار ’تاج محل‘ تعمیر ہوا۔
اس کے علاوہ آگرہ اور دلی کے لال قلعے میں عالی شان محلات اور مکانات تعمیر کیے گئے۔ شاہجہاں کے دور میں جو بھی عمارتیں بنوائی گئیں، ان میں سنگ مرمر کا انتہائی نفاست کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ دلی کی جامع مسجد، لال قلعے کا دیوان عام، دیوان خاص، مثمن برج، ساون بھادوں، شیش محل، انگوری باغ وغیرہ آج بھی باقی ہیں اور اپنے بانی کے ذوق تعمیر کی گواہی دے رہے ہیں۔ مغل دور کے آخری حکمران اورنگزیب نے بہت زیادہ عمارتوں کی تعمیر نہیں کروائی، تاہم ہندو، ترک اور ایرانی طرز کے اختلاط کی بنیاد پر مغل فن تعمیر کی روایت کو آگے بڑھایا۔