معاشی سمت!

October 23, 2020

وزیراعظم عمران خان اِس اطلاع کو وطن عزیز کے لئے بڑی خوشخبری قرار دینے میں حق بجانب ہیں کہ ہم معیشت کے حوالے سے درست سمت میں اپنا سفر کامیابی سے آگے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بدھ کے روز ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ اس سال ماہ ستمبر میں 735ملین ڈالر کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہو گیا ہے جو گزشتہ برس اِسی عرصے کے دوران 1492ملین ڈالر خسارے میں تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہاگزشتہ ماہ کے دوران برآمدات میں 2فیصد اور ترسیلات میں 9فیصد اضافہ ہوا۔ وزیراعظم کا مذکورہ بیان مبصرین کے اِن اندازوں کی حتمی تصدیق کررہا ہے جو وہ کچھ عرصے سے برآمدات اور ترسیلِ زر سمیت کئی حوالوں سے ظاہر کررہے تھے۔ ترسیلاتِ زر کے حوالے سے یہ بات مزید حوصلہ افزا ہے کہ یہ رقوم بینکاری چینل کے ذریعے قانونی طریقے سے آرہی ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے وقت ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 120ارب ڈالر اور ٹریڈ گیپ 145ارب ڈالر کے آس پاس پہنچ چکا تھا۔ اب معیشت کے اشاریے جس مسلسل مثبت رجحان کی طرف اشارہ کررہے ہیں اس کے حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کورونا وبا کے عالمی معیشت پر غیر معمولی منفی اثرات کے باوجود اس میں قابلِ ذکر کمی نہیں آئی۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ وبا کے اثرات سمیت متعدد عوامل اور بعض امور میں فیصلہ سازی میں تاخیر کے اثرات سامنے آئے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم کے وژن کے مطابق وائرس سے بچائو کی تدابیر کے ساتھ روزگار معاشی سرگرمیوں وغیرہ کی ممکنہ گنجائش، غریبوں اور کچی آبادی کے مکینوں کو بارہ ہزار روپے فی خاندان کی فراہمی اور سماجی تنظیموں کے تعاون سے بہترین خوراک کی بیشتر مقامات پر فراہمی کے انتظامات کے باعث کورونا وبا کو کسی بڑی ابتلا میں تبدیل ہونے سے کامیابی کے ساتھ روک دیا گیا جس کی آج دنیا معترف ہے۔ وزیراعظم نے بدھ کے روز جن اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں اور اجلاسوں کی صدارت کی ان کی تفصیلات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی توجہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے کام میں پیش رفت اور ان ترقیاتی امور کی طرف بہت زیادہ ہے جس سے ملک کو توانائی کے میدان میں ترقی دینا، صنعتوں کو بجلی سمیت کم لاگت پر ضروریات فراہم کرنا، سیاحت کو فروغ دینا ممکن ہو اور قومی صحت کارڈ سمیت عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات کو موثر بنانے میں مدد ملے۔ جہاں تک بیرونی قرضے لینے کا تعلق ہے وہ ایسے حالات میں ضروری ہو جاتے ہیں جب کسی ملک کی معیشت کو کھوکھلا کرکے قومی بقا کے مسائل پیدا کر دیے گئے ہوں، یہ قرضے منصوبہ بندی سے صنعتی ترقی اور مواقع روزگار بڑھانے پر خرچ کئے جائیں تو خوش حالی لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وطن عزیز میں عوام کے مشکل حالات اور غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق اس باب میں قرض کا حصول ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ بات درست سہی مگر قرض سے حاصل ہونے والی رقم اور پہلے سے موجود وسائل کو کرپشن سے بچانے کے لئے سخت ترین اقدامات کی ضرورت کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ موجودہ حکومت کی سمت کا ایک اندازہ سہولت کارڈ، صحت کارڈ، ای او بی آئی پنشن میں اضافے اور احساس پروگرام جیسے اقدامات سے واضح ہے مگر یہ ساری کاوشیں مہنگائی اور ضروری اشیا کی مصنوعی قلت کے آگے ماند پڑتی محسوس ہورہی ہیں۔ اس باب میں ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ اچھی مشینری کا حصول اور ٹیکنالوجی کی درآمد ایسی سرمایہ کاری ہے جس سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔