MACBETH

October 28, 2020

خیال تازہ … شہزادعلی
ولیم شیکسپیئر کو بلامبالغہ انگریزی زبان کے سب سے بڑے لکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے نام کے بغیر ادب کی کوئی بھی تاریخ ادھوری ہی کہلائے گی۔ دنیا بھر کے بلند پایہ نقاد شیکسپیئر کے کام کو خراج پیش کرتے چلے آئے ہیں اور دنیا کی سبھی بڑی زبانوں میں ان کے ادبی کام کے تراجم مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ 1590 سے 1613 کے درمیان شیکسپیئر نے کم از کم 37 ڈرامے لکھے، ان کے چند بہترین اور یادگار ڈراموں میں دی مرچنٹ آف وینس، رومیو اینڈ جولیٹ، دی ٹیمپیسٹ، اوتھیلیو، کنگ لئیر، مڈ سمر نائٹ ڈریم، میکبیتھ اور ہیملٹ شامل ہیں انہوں نے مزاحیہ، تاریخی اور المیہ تینوں قسم کے کھیل پیش کیے۔ 4 نظمیں بھی لکھیں اور سونیٹس کا ایک مشہور مجموعہ بھی پیش کیا یہ ڈرامے کامیاب ترین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنے فن کی بلند ترین سطح پر تھے۔ کنگ جیمز اول برطانیہ نے شیکسپیئر کے کام کے اعتراف میں ان کی ڈرامہ کمپنی لارڈ چیمبرلین کا نام کنگز مین یعنی بادشاہ کے آدمی رکھ دیا تھا۔ یہ سرپرستی اس کمپنی کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تھا لیکن اس کے باوجود شیکسپیئر کسی بھی طرح ایک کٹھ پتلی ڈرامہ نگار نہیں بنا اور وہ ایسے ڈرامے لکھتا رہا جس سے بادشاہت کے بارے میں مشکل سوالات پیدا ہوگئے ۔ ان کے قلم نے ادب کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لائیں اور آج بھی محققین اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ ان کا کام معاشرتی اور سیاسی سطح پر کیا کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ان کے ڈرامے اور شاعری سیاست اور ثقافت پر ایک مستقل نشان چھوڑنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان کے لکھنے کے انداز نے معروف مصنفین جیسے چارلس ڈکنز، مایا انجیلو اور جان کیٹس سمیت ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا، مختلف مصنفین اور شعراء ان کے اسلوب کو ڈراموں اور شاعری کی تحریر کے لئے رہنما اصولوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں، نیز، مزاحیہ، المیہ اور تاریخی کھیلوں کی انواع شیکسپیئر کی مقبولیت اور عالمی شناخت کے لیے ایک بہت بڑا متاع ہے۔ ولیم شیکسپیئر الفاظ کا جینیس تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے پاس 17000 الفاظ (اس وقت کے اوسط تعلیم یافتہ شخص سے چار گنا) تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں 1،700 سے زیادہ نئے الفاظ لائے اور ساتھ ہی بہت سے جملے اور اقوال بھی ایجاد کیے جو آج بھی ہم استعمال کرتے ہیں، آج ہمارا انتخاب میکبیتھ Macbeth ہے،تاہم ہماری اس کاوش کا مقصد اپنے قارئین کو برطانوی ادب کے فن پارے سے متعارف کرانا ہے، تاہم پاکستان کے سیاسی حالات، سیاسی طبقے کی اقتدار کے لیے ہوس پرستی یا وہاں پر سیاسی معاملات میں عسکری قیادت کی مداخلت اور سیاسی طاقت کے طویل عرصے سے جاری کھیل میں کسی کو اگر اس کالم میں کہیں کوئی جھلک نظر آتی ہے تو یہ محض اتفاقی ہوگی، میکبیتھ ولیم شیکسپیئر کا 1606 میں لکھا ہوا ایک شاھکار المیہ ڈرامہ ہے یہ اسکاٹش جنرل میکبیتھ کی کہانی سناتا ہے جو بہادر اور جری تو ہے مگر اقتدار کی بےحد خواہش، عزائم اور طلب کی وجہ سے سپہ سالاری کے اعلیٰ جوہر اور اخلاقی اقدار کو چھوڑ دیتا ہے اس مقصد کیلئے کے لیے وہ ہر حد عبور کر جاتا ہے اور اس بادشاہی کی قریب سے تباہی لاتا ہے جس کی وہ حکمرانی کرنا چاہتا ہے، پہلے تو یہ تنازع میکبیتھ اور خود کے مابین ہے کیونکہ وہ بحث کرتا ہے کہ وہ زوردار طور پر اقتدار پر قبضہ کرے گا یا نہیں اور میکبیتھ اور پھر اس کی اہلیہ کے مابین جیسا کہ لیڈی میکبیتھ نے اپنے شوہر کو ایسے عمل کی طرف راغب کیا جس سے وہ ہچکچاہٹ محسوس کررہا ہے ایک بار جب میکبیتھ اپنے عزائم کے خلاف جدوجہد کرنا چھوڑ دے تو تنازعہ بدل جاتا ہے، اس کے بعد یہ بنیادی طور پر میکبیتھ اور دوسرے کرداروں کے مابین موجود ہے خاص طور پر بینکو اور مکدوف جو اپنے اختیار کو چیلنج کرتے ہیں۔ میکبیتھ اس معنی میں مرکزی کردار ہے کہ وہ اس داستان کا مرکزی محور ہے اور سامعین کو اکثر اس کے نقط نظر تک رسائی حاصل ہوتی ہے، وہ اکثر اپنے بہترین مفادات کے ساتھ ساتھ دوسرے کرداروں اور اپنے ملک کے بہترین مفادات کے خلاف کام کرتا ہے ، یہ تنازعہ بنیادی طور پر میکبیتھ اور ان لوگوں کے درمیان مخالفت میں ہے جو اس کے اقتدار پر عدم اعتماد کرتے ہیں ایسے کردار بالآخر اسے شکست دیتے ہیں، یہ تنازع اس وقت شروع ہوتاہے جب میکبیتھ کو تین جادوگرنیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو یہ پیش گوئی کرتی ہیں کہ وہ ایک دن اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ بنے گا۔ اور اپنی اہلیہ کی حوصلہ افزائی اور شہ پاکر وہ بالآخر اسکاٹش تخت و تاج پر قبضہ کرلیتا ہےمگر بادشاہ بننے کے بعد اس کی زندگی میں ایک نئی جنگ شروع ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ میک بیتھ کی حکمرانی مجموعی طور پر اسکاٹ لینڈ کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے اور وہ ندامت اور جنون کی وجہ سے نہ صرف خود تباہ و برباد ہوجاتا ہے بلکہ ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل دیتا ہے اور آخر کار میکبیتھ اور لیڈی میکبیتھ دونوں برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں، میکبیتھ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے ایک المناک ڈرامے میں مہلک نقص سے مراد مرکزی کردار کی شخصیت کی بنیادی غلطی ہے جو اس کے اعمال کو چلاتی ہے، میکبیتھ بنیادی طور پر ایک اچھا آدمی ہے جو طاقت کے حصول کے لیے غلط ہو جاتا ہے جو بالآخر اسے اپنی تباہی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ اس کی اہلیہ اس کے ساتھ اس مہلک عیب میں شریک ہوتی ہے میکبیتھ کا ظلم، جبر و زیادتی اس کے زوال کا باعث بنتا ہے چونکہ وہ غرور میں مبتلا ہو کر جادوگرنیوں کی پیش گوئیوں کی غلط توجیح کرتا ہے اور اس بات پر یقین کرتا ہے کہ وہ اس کی شان و شوکت کا وعدہ کرتی ہیں جبکہ جادوگرنیوں کے ناقابل اعتبار ہونے کا میکبیتھ کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب اسے اپنی موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اگرچہ ان جادوگرنیوں کو ان واقعات پر مورد الزام ٹھہراتا ہے جبکہ درحقیقت اس کی اپنی خواہش بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے، وہ یہی کچھ سننا چاہتا تھا جو اسے ان جادوگرنیوں نے سنایا تھا تاہم یہ المیہ یا ٹریجڈی اس لیے بھی ہے اور اپنی غلطیوں کے باوجود اسے مکمل طور پر ہمدردی کے اسحقاق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ متعدد طاقتور قوتیں اسے اس غلط فعل پر عمل کرنے کے لئے اکساتی ہیں اور ایک لمبے عرصے سے اسے یقین ہے کہ وہ اس کی تقدیر پر چل رہا ہے ، اس کی موت سیاسی اور سماجی تنازعات کو حل کرتی ہےکیونکہ جائز بادشاہ اب اقتدار میں واپس آسکتا ہے اور اسکاٹ لینڈ میں نظم و ضبط بحال کرسکتا ہے اور ملک کا مستقبل پھر روشن ہو سکتا ہے، ولیم شیکسپیئر نے اس ڈرامہ کی بنیاد نیکی اور بدی کے مابین تصادم پر رکھی ہے اور اس کھیل کے ذریعے انہوں نے انسانیت کی اعلیٰ و ارفع قدروں کو پیش کیا ہے، میکبیتھ کے کلیدی موضوعات میں سیاسی طاقت کا ناجائز طریقے سے حصول، برائی کے مقابلے میں اچھائی، مافوق الفطرت قوتوں کا اثر و رسوخ، ظہور اور حقیقت کے مابین فرق ، وفاداری اور جرم شامل ہیں، کوئی یہ فرض کرسکتا ہے کہ شیکسپیئر کی تحریریں معاشرے اور سیاست پر ان کے افکار اور عقائد کی عکاسی کرتی ہیں، ایک جگہ میکبتھ کہتا ہے کہ اس کے پاس نہ کوئی دوست ہے، نہ اسے کسی کا پیار حاصل ہے اور نہ آنر، عزت، یہ تینوں خصوصیات ایک بادشاہ کے لیے ضروری ہوتی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اسے حاصل نہیں، دوسرے الفاظ میں عظیم ڈرامہ نگار یہ سبق دے رہا ہے کہ جب کوئی شخص ناجائز طور اقتدار پر قبضہ کرے گا تو پھر اس کودوستی، محبت اور عزت کو کھونا پڑے گا، میکبیتھ نے ہمیں قرون وسطی اور جاگیردار اسکاٹ لینڈ کی وحشی اور توہم پرست دنیا سے تعارف کرایا۔ تاہم کچھ موضوعات جن پر شیکسپیئر نے روشنی ڈالی وہ 21 ویں صدی میں اب بھی متعلقہ ہیں۔ میکبیتھ میں بہت سارے موضوعات ہیں جن کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ تین اہم ہیں: عزائم اور طاقت، مافوق الفطرت اور ظہور اور حقیقت،شیکسپیئر نے جولیس سیزر، ہیملیٹ، دی ٹیمپیسٹ اور اوٹیلو جیسے متعدد دیگر ڈراموں میں بھی ان موضوعات کی جانکاری کی۔ بی بی سی کے ایک جائزہ کے مطابق میکبیتھ کی خواہش اور اقتدار کی خواہش اس کے زوال کا باعث بنی ، شیکسپیئر نے میکبتھ کو دور ماضی میں اور برطانیہ کے ایک حصے میں سیٹ کیا جس سے ان کے بہت سے سامعین واقف ہوں گے۔ اسکاٹ لینڈ کو ایک جنگلی اور وحشی مقام کے طور پر دکھایا گیا ہے جس پر حکمرانی ایک کمزور بادشاہ (ڈنکن) کر رہا ہے جو اپنا کنٹرول رکھنے کے لئے اپنے جنگجوؤں پر انحصار کرتا ہے تاہم میکبیتھ کے کردار کے ذریعہ شیکسپیئر یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت زیادہ خواہش اور طاقت کا مکمل کنٹرول ہونا بھی اتنا ہی خراب ہے ، اس کھیل کے اختتام تک میلکم بادشاہ بن گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ زیادہ بہتر حکمران ہوگا اور اپنے لوگوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ سلوک کرے گا۔میکبیتھ میں شیکسپیئر ہمیں تین بہت ہی مختلف قائدین دکھاتا ہے۔ ڈنکن اچھا بادشاہ نہیں ہے اگرچہ وہ مہربان اور فیاض ہے اور وہ کمزور ہے۔ میکبتھ مضبوط ہے لیکن آمر بن جاتا ہے جبکہ ایسا لگتا ہے کہ "میلکم" صحت مند توازن برقرار رکھتا ہے اور دونوں حکمرانوں کی اچھی خصوصیات کو یکجا کرتا ہے۔ میکبیتھ کا ایک "خیال" جو آج بھی آپ کو حکمرانوں میں دکھائی دے گا وہ ہے لالچ اور خود غرضی ، وہ یہ قبول نہیں کرسکتا کہ "بنکو" کی اولاد اس کے بعد بادشاہ بن جائے وہ طاقت کو شئیر کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے، اس کے لالچ کا معنی یہ ہے کہ وہ طاقت کو اپنے اور اپنے خاندان تک محدود رکھنا چاہتا ہے، میکبتھ چونکہ المیہ ڈرامہ ہے یعنی"ناخوشگوار خاتمہ کے ساتھ کھیل" ۔ دلچسپ طور میکبتھ کھیل میں سب سے اہم کلیدی الفاظ میں "خون، رات اور وقت" شامل ہیں ، خون سے متعلق حوالہ جات میکبیتھ کے عمل کے براہ راست نتائج کی مستقل یاد دہانی ہیں۔ رات کے لفظ کا مسلسل تکرار ڈرامے اور کچھ کرداروں کے دل میں اندھیرے کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ شیکسپیئر کے دن میں اس کا ایک اور خاص طور پر عملی استعمال تھا۔ ڈراموں کو باقاعدگی سے دروازوں سے باہر اور دن کی روشنی میں دکھایا جاتا تھا۔ شیکسپیئر کا یہ ڈرامہ نہ صرف اپنے تھیمز، مفائیم themes بلکہ الفاظ کے چناو کے لحاظ سے بھی آج بھی مختلف معاشروں میں سیاسی مناظر کی جھلک اس بھرپور طریقے سے پیش کرتا ہے کہ گویا یہ شاید آج ہی لکھا گیا ہے ، اس کھیل میں ہم ایک تشدد پسند دنیا سے متعارف ہوئے ہیں ، ایک ایسی دنیا جس میں وفاداری اور وفاداری کی گرفت ہے اور کسی بھی مخالفانہ حرکت کو امن و امان قائم کرنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں فیصلہ کن اور سخت سزا دی جاتی ہے۔ یہ ایسی دنیا ہے جہاں اخلاقیات کو کم کیا گیا ہے ، میکبتھ میں ہم صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ کتنا خوفناک طور پر انسانی روح کو خراب کیا جاسکتا ہے، خواہش کا خیال ایک پریشانی کا باعث ہے۔ عام طور پر اس سے ایک سوار کو رکاوٹ دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے مگر یہ گرا بھی سکتی ہے اگر خواہش جائز حدود سے متصادم ہے ، المیہ کی طاقت کا ایک حصہ اس خیال سے اخذ کیا گیا ہے کہ اس کھیل سے پورا معاشرہ اوپر سے نیچے متاثر ہوتا ہے، ڈرامہ میں جادوگرنیوں جنہوں نے برائی کی ترغیب دی تھی کو کوئی سزا نہیں ملتی وہ صرف منظر سے غائب ہو جاتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ڈرامے میں برائی کی جو بنیاد ہے اسے بغیر سزا کے چھوڑ دیا گیا ہے!۔