انتخابات یا فکری ٹکراؤ

May 05, 2013

2013ء کے انتخابات ملکی تاریخ کے ایسے انوکھے انتخابات ہیں جس میں ووٹ شماری سے قبل ہی ظاہر یہ کیا جا رہا ہے جیسے مملکت کی باگ ڈور مخصوص جماعتوں کے ہاتھ آ گئی ہو۔ اس تاثر کو نمایاں کرنے میں میڈیا سمیت جہاں دیگر عوامل کارفرما ہیں وہاں پیپلز پارٹی کی ”قناعت پسندی“ بھی اس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ 2008ء میں ملکی و غیر ملکی ضامنوں کے توسط سے میاں صاحب و محترمہ کے پاکستان آنے اور اقتدار کی بندر بانٹ کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا تھا، اس کے تحت چونکہ میاں نواز شریف کی خاموش تائید سے پیپلز پارٹی نے اپنی اننگز مکمل کر لی ہے لہٰذا اب دوسرے کو باری دینے میں فریق اول کو بادل نخواستہ ہی سہی، لیکن متعین کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری رائے اس خیال کی نفی کرتے ہوئے یہ ہے کہ مستقبل کے روڈ میپ کی خاطر لبرل جماعتوں کو کوچہ اقتدار سے رخصت کرنے کیلئے بیلٹ سے قبل بُلٹ کا کھیل شروع کر دیا گیا ہے۔ راقم کی سوچ جسے خام بھی کہا جا سکتا ہے مگر یہ ہے کہ پری پول دھاندلی کے شاہکار کارناموں کے باوجود تین جماعتوں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی عددی اہمیت کو آئندہ کے سیٹ اپ میں نظر انداز کرنا مشکل تر اور کڑا امتحان ثابت ہو گا۔ راقم کی کج فہمی کے مطابق صدر زرداری کو قصرِِصدارت تک محدود اور بلاول بھٹو کو حفاظتی نقطہ نظر سے عوام سے دوری پر مجبور کئے جانے کے بعد چونکہ کوئی ایسی طلسماتی شخصیت پیپلز پارٹی میں نہیں ہے جو عمران خان یا میاں صاحب کی طرح جمِ غفیر کو اپنی جانب کھینچ لائے، اس لئے بڑے جلسوں کا تماشا ٹی وی اسکرین پر نہ دکھا سکنے کے باوصف پیپلز پارٹی کے ناقابل تسخیر قلعے سندھ سمیت ملک بھر میں اس جماعت کی مضبوط نشستیں ہیں، جن سے چھیڑ خانی شاید اتنی آسان نہ ٹھہرے جس کا گمان ”ٹی وی زدہ“ تجزیہ کار کر رہے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر جو ہوشربا کرشمے ظہور پذیر ہیں اور اربوں روپے کے اشتہارات اس سحر میں جس قدر وجد و کمال پیدا کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ ادائے دلربائی کسی کے طبع نازک یا وجدانِ باطن پر الہام بن کر نازل ہو رہے ہوں اور وہ نئے پاکستان کی آرزو میں نیم خواب آنکھوں تلے تر و تازہ ہونٹوں پر فیض صاحب کا ترانہ ”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے“ بھی گنگنا رہے ہوں لیکن دل نہیں مانتا کہ اربوں روپے کے وہ اشتہارات جن سے شوکت خانم اسپتال کی طرح کئی طبی ادارے، دانش اسکولوں سے بھی جدید تعلیمی ادارے بن سکتے تھے، یونہی عوام کی محبت میں رقصِ ن و جنون پر نچھاور کئے جا رہے ہوں اور منشا و مقصد اقتدار میں آ کر اربوں کو کھربوں میں تبدیل کرنا نہ ہو۔ راقم کے خیال میں بم دھماکوں کی نسبت یہ پری پول دھاندلی کی وہ دلفریب شکل ہے جس کے ذریعے دلیل و منطق کے بغیر عوام پر اپنے خیالات تھوپے جاتے ہیں۔ عوام کے چینل دیکھنے کے شوق کو اشتہارات کے ذریعے ہائی جیک کرنا زر کے ذریعے ذہنوں کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے لامحالہ وہ امیدوار یا جماعتیں متاثر ہوتی ہیں جو ایسی عیاشی کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ ممتاز صحافی ایاز امیر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ٹی وی اسکرین پر ایبٹ آباد سے لاہور یا اوکاڑہ تک دکھائے جانے والے جلسوں کے مناظر پورے پاکستان کی رائے عامہ کی عکاسی نہیں کرتے“۔ سچ بھی یہی ہے کہ سندھ سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی جیتنے کے آثار نہیں۔ پہلے سے کم سہی لیکن پیپلز پارٹی پنجاب سے بھی روایتی نشستوں پر کامران ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم ایک آدھ نشست کے کم یا زیادہ ہونے کے باوجود مستحکم پوزیشن پر ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ہاتھ کچھ آنے سے رہا۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کی بات ہے تو تمام جماعتیں مال غنیمت سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ بعض قوم پرست حلقے شکوہ کرتے ہیں کہ فضا ایسی بنا دی گئی ہے کہ جس جس جماعت کی قیادت اس صوبے سے تعلق نہیں رکھتی یعنی جیسے نواز شریف، منور حسن، عمران خان وغیرہ وغیرہ، وہ صندوقوں میں بھر بھر کر یہاں سے ووٹ لے جائیں گے لیکن اس صوبے کا بیٹا اسفند یار ولی خان بوجوہ ایسا نہیں کر سکتے! راقم کے خیال میں لیکن عملی سطح پر ایسا ہو گا نہیں۔ پختونخوا کے بعض حلقوں میں ن اور جنون کے علاوہ جماعت اسلامی، جے یو آئی (مولانا فضل الرحمن گروپ)، جے یو آئی (مولانا سمیع الحق گروپ) کے امیدوار بھی باہم مدمقابل ہیں۔ عام مسلمان تو کیا سکّہ بند مجاہد بھی ایسے عالم میں اس مخمصے سے دوچار ہوگا کہ کس جماعت کے ”اسلام“ کو ووٹ دیا جائے!؟ لا محالہ فائدہ اے این پی کو ہو گا… اس طرح اے این پی اقتدار کی ٹرین کی اگلی نشستوں پر بیٹھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ محتاط سے محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو پختونخوا میں اگر یہ جماعت بلا شرکت غیرے حکومت نہ بھی بنا سکے تو بھی یہ اتنی نشستیں لے جائے گی کہ چار سو کھڑے مخالفین جلتے رہ جائیں گے۔ پشتو کا ایک ٹپہ ہے
کا، مے دَ حُسن دوران تیر شو
دومرہ بہ وی چہ تا بہ پرے سیزمہ
یعنی اگر عہد رفتہ کے ساتھ میرا شعلہ آفریں حُسن ماند بھی پڑ جائے تو بھی اے جاناں، اتنا تو پھر بھی ہو گا کہ جو انگارہ بن کر ترے تن بدن کو سلگاتا رہے گا! یہ انتخابات لبرل اور رجعت پسند قوتوں میں سیاسی ٹکراؤ کی طرف تو واضح اشارہ کر رہے ہیں لیکن رجعت پسندوں کے پسِ پشت اسٹیبلشمنٹ کے روایتی ہاتھ کو تلاش کرنا شاید مشکل ٹھہرے بلکہ 30/اپریل کو یوم شہداء پر پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جو فکر انگیز باتیں کہیں، ان سے انتخابات، جمہوریت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت کئی امور پر مسلح افواج کی جو سوچ سامنے آئی ہے، وہ نہ صرف اس طرح کے کسی تاثر کو زائل کرنے بلکہ رجعت پسند سوچ کی قلعی کھولنے کیلئے بھی کافی ہے۔ جہاں پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی بعض مشکوک سرگرمیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مظلوم ظاہر کر رہی ہیں، وہاں رجعت پسند اور ان کے حواری ”اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے، لہٰذا کامیابی یقینی ہے“ کا تاثر دے کر عوام کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے مکر و فریب کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ اس تقریر اور تقریب سے ہر دو تاثر بے جان سے ہو جاتے ہیں۔ نامور صحافی حامد میر نے فرطِ جذبات سے اپنے کالم میں جس طرح اس تقریب کی منظر کشی کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ پاک فوج کی یہ تقریب دیگر تمام شہداء کے ساتھ ساتھ اے این پی کی قربانیوں کے اعتراف کی عکاس تھی۔ جی ایچ کیو میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور کا نام قومی ہیرو کے طور پر لیا گیا۔ افواج پاکستان کے افسران اور جوانوں کے سامنے ایک بڑی اسکرین پر بشیر احمد بلور کی بہادری کی جھلکیاں دکھائی گئیں اور پھر ان کے بہادر بیٹے ہارون بلور کو ڈائس پر بلایا گیا۔ ہارون بلور نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ان کی پارٹی پاک فوج کے شانہ بشانہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ بلاشبہ اس موقع پر اس تقریب سے ان محب وطن مکاتب فکر کو تقویت ملے گی جو انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اے این پی کی قربانیوں کے اس طرح قومی سطح پر اعتراف سے قومی سوچ و یکجہتی کو وسعت و فروغ ملے گا۔
حرفِ آخر: میں ابھی یہ کالم مکمل نہیں کرپایا تھاکہ این اے 254 سے اے این پی کے امیدوار اور ضلع شرقی کراچی کے جنرل سیکرٹری صادق خٹک کی شہادت کی افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ نماز جمعہ کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ان کے ہمراہ ان کا 5 سالہ معصوم صاحبزادہ بھی فائرنگ کے باعث اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو گیا جبکہ ایک صاحبزادے سمیت پارٹی کے 4 کارکن زخمی ہو گئے۔ اس واقعے نے ہر دل کو مغموم کردیا ہے، نبی کریم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں جانے والا اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے، نہ جانے صادق خٹک اور اس ننھی سی جان کا وہ کتنا بڑا قصور تھا جس کی وجہ سے قاتلوں نے خدائے بزرگ و برتر کے اس اصول کی بے حرمتی کرنا بھی ضروری سمجھا !! صادق خٹک باغ و بہار انسان تھے، ہر وقت ہنستے مسکراتے، خٹک اور ان کے خاندان کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔
مطرب سے کہو، آج اس انداز سے گائے
ہر دل کو لگے چوٹ سی ، ہر آنکھ بھر آئے