’’G-20‘‘ ممالک سے وزیر اعظم کا مطالبہ

November 08, 2020

دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے والے ممالک ’’G-20‘‘ کہلاتے ہیں۔ گزشتہ دنوںاقوام متحدہ کے زیر اہتمام ترقی کیلئے سرمائے کی فراہمی سے متعلق اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے خطاب کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اسمارٹ لاک ڈاون کے ذریعے وبا کا پھیلاو روکنے میں کامیاب رہا ،دنیا اب بھی کورونا وبا سے مکمل محفوظ نہیں ہے، اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہ ہوں، جی 20 ممالک کی طرف سے قرضوں میں نرمی میں کم از کم ایک سال کی توسیع کی جائے مگرتوسیع سے کریڈٹ ریٹنگ متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹیکس محصولات کم ہوئی ہیں۔ اس صورتحال میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 40فیصد اور تجارت 20فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ کورونا کی ویکسین جلد دستیاب ہو گی۔ دنیا کے ہر فرد کو کورونا ویکسین تک آسان رسائی حاصل ہونی چاہئے۔ طبی اور معاشی ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے وبا پر قابو پانا ضروری ہے۔ کورونا وباکے دوران مشکل معاشی حالات کے باوجود عوام کیلئے 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا۔ قرضوں کی واپسی میں نرمی ترقی پذیر ملکوں کی مالی مدد کا تیز ترین اور موثر طریقہ ہے۔ امیر ممالک غریب ملکوں کیلئے 500 ارب ڈالر کا فنڈ قائم کریں۔ سالانہ 1.5ٹریلین اکٹھے کرنے کیلئے یو این انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ فیسیلیٹی قائم کی جائے۔ قارئین!پس منظر و پیش منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے والے ممالک ’’G-20‘‘ کہلاتے ہیں جبکہ دنیا کے آٹھ امیر ترین ممالک کی تنظیم ’’جی 8‘‘ کہلاتی ہے۔ جی ایٹ ممالک میں کینیڈا، فرانس، جاپان، جرمنی، اٹلی، روس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ جی 8کے وقتا ً فوقتاً اجلاس ہوتے رہتے ہیں۔ان کے اکثر اجلاسوں میں گلوبل وارمنگ، غربت کا خاتمہ اور مبینہ دہشت گردی کا بڑھتا ہوا گمبھیر مسئلہ سب سے اہم ایشو ہوتاہے۔اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور تشدد کے روک تھام کا حکم اسلام ہی سب سے زیادہ دیتا ہے۔ مسلمانوں نے رواداری کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی انگشت بدنداں ہیں۔ اگر بالفرض مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں تو دہشت گردی کے ان اسباب وعلل پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ اس کا اصل سبب بھی سامراجی طاقتوں کی ناروا اور ناانصافی پر مبنی مسلم کش پالیسیاں ہی ہیں۔ استعماری قوتوں کے دہرے معیار ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اپنے اس قول میں سنجیدہ ہیں کہ ’’دنیا سے دہشت گردی ختم ہونا چاہئے‘‘ تو اس کے لئے ناانصافی کے خاتمے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ جی ایٹ ممالک متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی میں غربت کا عنصر بھی شامل ہے۔ لہٰذا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے غربت کا خاتمہ ناگزیر ہے لیکن ان ممالک کی اقتصادی ومعاشی، زرعی، ٹیکنالوجی اور دیگر پالیسیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے دن بدن غربت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اگر یہ امیر ممالک واقعتا غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر انہیں چند کام کرنے ہوں گے۔ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے مطالبات بھی یہی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عالمی منڈی تک پہنچنے میں اگر مددنہیں کر سکتے تو کم ازکم رکاوٹ بھی نہ ڈالیں ۔دوسرا یہ کہ ترقی پذیر ممالک پر ان کے جو ایک کھرب ڈالر سے زائد کے قرضے ہیں، وہ قرضے یا کم ازکم ان کا سود ہی معاف کریں۔ تیسرا یہ کہ اپنی استحصالی اور خون آشام پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ اس وقت جنگوں میں جو اسلحہ استعمال ہورہا ہے، وہ ان ہی ممالک کا ہے۔ پہلے وہ جنگوں کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور پھر اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ ان ممالک نے یہ وطیرہ بنارکھا ہے کہ پہلے وہ مسائل پیدا کرتے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک میں یورشیں اور شورشیں بپا کرتے ہیں۔ اس کے بعد ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے نام پر ان کے لئے برائے نام امداد او قرضوں کا اعلان کرتے ہیں۔ پہلے وہ مارتے ہیں پھر مرہم پٹی کرتے ہیں لیکن زخم خشک ہونے سے پہلے ہی پھر زخمی کردیتے ہیں اور بعدازاں انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کہہ کر نمک پاشی کرتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک دنیا سے دہشت گردی اور غربت کا خاتمہ اور امن وامان کا قیام چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہی ان کے لئے سوچنے کا مقام اور کرنے کا ایک بڑا کام ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)