آپ کو برطرف کیا جاتا ہے

November 13, 2020

پچھلے دنوں ہم نے برطرفی کے دو نوٹس دیکھے۔ ایک کو دیکھ کر محظوظ ہوئے، لطف آیا۔ اور برطرفی کا دوسرا نوٹس ایسا دیکھا جسے دیکھ کر دکھ ہوا اور رونا آیا۔پہلے نوٹس کا قصہ سن لیجئے۔

امریکہ کے صدر ٹرمپ کے بارے میں جب اچھی طرح طے ہوگیا کہ عوام نے انہیں مسند اقتدار سے نکال باہر کیا ہے، مظاہرین کا ایک مجمع واشنگٹن میں صدر کی قیام گاہ وہائٹ ہاؤس جا پہنچا۔

انہوں نے ایک بڑا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس کا رخ قیام گاہ کی طرف تھا اور اس پر بڑا بڑا لکھا تھا: آپ کو برطرف کیا جاتا ہے۔جمہوریت سرخ رو ہوئی۔

اب رہ گیا دوسرانوٹس، جو دل و دماغ میں پھانس بن کر رہ گیا اور نہیں معلوم کب تک چبھتا رہے گا۔

یہ نوٹس حکومتِ پاکستان کی طرف سے جاری ہواجس میں کسی گرے پڑے معمولی ادارے کے نہیں، بلکہ ملک کی قومی نشر گاہ ، ریڈیو پاکستان کے سینکڑوں ملازموں سے کہا گیا: آپ کو برطرف کیا جاتا ہے۔

ماہانہ تنخواہ پر گزارا کرنے والے ملازموں کوخبر سنائی گئی کہ آپ کی مزید خدمات کی ضرورت نہیں، کل سے کام پر نہ آئیے گا۔نوٹس بالکل یوں دے دیا گیا جیسے ناک پر بیٹھنے والی مکھی کو لاپروائی سے اڑا دیا جاتا ہے۔ ہزار سے زیادہ ملازموں کے گھروں میں فاقے کی شروعات ہوگئی۔

مدینے کی ریاست پر قائم ہونے سے پہلے ہل چلادیا گیا اور وہ بھی اس شان سے کہ معمول کے بر خلاف کارکنوں کو بھیڑ بکری کی طرح برخاست کئے جانے کا سبب بھی نہیں بتایا گیا۔

تھوک کے بھاؤ بر طرفیاں کوئی چھوٹی سی کارروائی نہیں، اسے عام زبان میں قتل ِعام کہا کرتے ہیں۔

یہ ریڈیو پاکستان، یہی ریڈیو پاکستا ن کبھی کیسا جیتا جاگتا ادارہ ہوا کرتا تھا جو دنیا بھر کے ملکوں کی نشر گاہوں کی طرح ملک کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔

اصول یہ ہے کہ ہر ملک کے تین ادارے، ریڈیو، ٹیلی وژن اور فضا ئی سروس دنیا کی فضاؤں میں کسی مملکت کے پرچم بردار تصور کئے جاتے ہیں۔ان کو اہم مقام قرار دیا جاتا ہے۔

دنیا میں کوئی سنے یا نہ سنے ،ریڈیو اپنی سر زمین کی آواز جانا جاتا ہے، ان تینوں اداروں کی خاص نگرانی اور حفاظت ہوتی ہے، ملک میں بحران ہو تو سب سے پہلے ریڈیو، ٹی وی اور ہوائی اڈوں پر پہرہ بٹھایا جاتا ہے۔ مگر اب انہیں کون سمجھائے کہ قومی نشر گاہ کو نقصان پہنچانا گویا قومی قوت گویائی کو اس کی صلاحیتوں سے محروم کرنا ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ جن سینکڑوں ملازموں کو کھڑے کھڑے ملازمت سے نکال دیا گیا، ان میں بڑی بڑی شان دار تنخواہیں پانے والے افسر شامل نہیں۔

یہی چھوٹی چھوٹی اجرتوں پر گزارہ کر نے والے وہ افراد ہیں جو ادارے کے وہ معمولی کام سرانجام دیتے ہیں جنہیں اعلیٰ افسر اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک ہزار سے زیادہ ملازموں کو نکال کر جتنا پیسہ بچایا جائے گا، اتنی بچت پانچ چھ اعلیٰ افسروں کو فارغ کرکے کی جاسکتی ہے جن میں کتنے ہی سفارشی ہوں گے، کتنے ہی جعلی ڈگریاں لے کر آئے ہوں گے اور کتنے ہی دیہی کوٹے او رشہری کوٹے کے نام پر بھرتی کئے گئے ہوں گے۔

اگر یہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہوتے تو ریڈیو پاکستان یوں خوار نہ ہوتا کہ اب گنتی کے لوگ اس کی نشریات سنتے ہوں گے۔وہ دن بہت قدیم نہیں ہوئے جب کیسے کیسے اعلیٰ پائے کے لوگ، بے پناہ خوبیوں کے مالک لوگ ریڈیوپاکستان کا نام اونچا کیاکرتے تھے۔

اب حال یہ ہے کہ بے روزگار لوگ سڑکوںپر نکل آئے ہیں۔ نشر گاہوں کو چلانے والے لوگ گلی کوچوں میں ’دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا‘ جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان میں ستم رسیدہ خواتین بھی نظر آئیں جو ریڈیو میں خدمات انجام دے کر اپنے گھر چلار ہی ہوں گی۔

اب وہ بھی اسلام آباد کی سڑکوںپر مٹھیاں لہرا لہرا کر آواز لگا رہی ہیں کہ ملازمین کو بحال کرو۔ وہی اسلام آباد ، مملکت کا دارالحکومت، جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فربہ وزیر ریڈیو کی وسیع عمارت کو کرائے پر اٹھانے چلے تھے اور وہ بھی یہ کہتے ہوئے کہ ریڈیو اسٹیشن تو ایک کمرے میں بھی قائم ہوسکتا ہے جس پر میں نے لکھا تھا کہ وزیر صاحب نے تکلف سے قائم لیا، ریڈیو اسٹیشن تو باتھ روم میں بھی قائم ہو سکتا ہے اور یہ کہ وہاں سے گونجتی آوا ز وزیر موصوف کو ’نوائے سروش‘ لگے گی۔

ابھی کسی نے بتایا کہ اسکردو کے ریڈیو اسٹیشن کی آواز کم زور پڑگئی ہے جب کہ لکیر کی دوسری طرف ریڈیو کارگل کی آواز بہت بلند او رتوانا ہے۔ وہاں بھارت کا انتظام و انصرام ہے، وہ ہمارے کانوں میں کیا کیا نہیں بھریں گے۔ میںنے اسکردوکا ریڈیو اسٹیشن دیکھا ہے ،کبھی بڑے چاؤ سے قائم کیا گیا ہوگا، عملہ بھی دوڑ دھوپ میں منہمک تھا۔

سوچتا ہوں کیا ان لوگوں نے گھر جاکر بیوی بچوں کو خبرسنائی ہوگی کہ ان کی ملازمت ختم کردی گئی ہے؟قدرت انسان کو اختیار دے مگر ساتھ میں عقل بھی دے۔ میں نے بہاول پور کی نشر گاہ بھی دیکھی ہے۔ لوگ کتنے سکون سے کام کر رہے تھے۔

اب خیال آتا ہے کہ ان میں سے نہ جانے کتنوں کو بال بچوں کی تعلیم ، دوا علاج، مکان کے کرائے اور دو وقت کی روٹی کی فکر کھائے جارہی ہوگی۔مجھے ملتان کی نشر گاہ بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ وہاں راہ داریوں میں اندھیرا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ وہاں سے روزی کمانے والوں کی زندگیاں اندھیروں میں ڈوب رہی ہوں گی۔

میں ان تحریروں میں لاکھ کوشش کرتا ہوں کہ سیاست کے بکھیڑوں میں نہ الجھوں اور سیاسی حکومت کو کام کرنے اور کچھ کر دکھانے کا موقع دوں مگر بات گھوم پھر کر ان ہی لوگوں کی طرف جاتی ہے جنہیں زمانے کے اتفاقات نے لے جاکر مسند ِاقتدارپر بٹھا دیا ہے مگر غضب یہ کیا ہے کہ ایسے اعلیٰ منصب کے ساتھ ساتھ دو چار خوبیاں عطا کرنے کی ضرورت تھی، زمانے کے اتفاقات نے ان لوگوں کو ان خوبیوں سے محروم رکھا۔ میں جانتا ہوں اور تمام با خبر افراد جانتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کی املاک، جائیدادیں ، پراپرٹیز ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔

سنا ہے ان کو ایک ایک کرکے ٹھکانے لگایا جا رہا ہے اور یہ لوگ اپنی دانست میں سرکاری خزانے پر بڑا احسان کر رہے ہیں۔یہ لوگ یا تو بھولے ہیں یا کچھ اور ہیں۔ ان کا حال دیکھ کرایک احساس ہے جو چٹکیاں لئے جاتا ہے کہ کہیں کچھ غلط ہوگیا۔

ایک یقین ہے جو مستحکم ہوتا جاتا ہے کہ شاید زمانے کو ایک نوٹس اور دینے کی ضرورت ہے۔وہی نوٹس جو وقت کے پلے کارڈ پر بڑا بڑا لکھا ہوا ہے۔