کمپیوٹیشنل سوچ، کمپیوٹر کے انداز میں مسائل کا حل

November 22, 2020

کمپیوٹر کی ایجاد ریاضیاتی اصولوں پر ایک حسابی مشین کے طور پر سامنے آئی لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آگے چل کر یہی کمپیوٹر سائنس و ٹیکنالوجی، ریسرچ اور پروڈکشن میں سب سے زیادہ استعمال ہوگا۔ ایک بڑے حجم پر مبنی کمپیوٹر وقت کے ساتھ ساتھ نینو ٹیکنالوجی متعارف ہونے سے اب ہاتھوں میں آگیا ہے۔

سپر کمپیوٹر اب ایک باریک سی چپ کے ذریعے ہینڈی ہوگیا ہے اور کوانٹم کمپیوٹر روشنی کی رفتار سے کام کررہا ہے۔ ایسے میں کمپیوٹیشنل سوچ یعنی ادراک و شعور جیسی سائنس وجود میں آنا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر کی مانند کام کرتا ہے۔ اس کی یادداشت ڈاؤن لوڈ فائلز کی طرح ہوتی ہے، جب ضرورت ہوئی وہ فائل کھول لیں۔

کمپیوٹیشنل سوچ کیا ہے؟

کمپیوٹیشنل سوچ، سوچنے کا ایک ایسا عمل ہے جس میں مسائل اور ان کا حل کمپیوٹر کے انداز میں کیا جاتا ہے۔ اسےپیچیدہ مسائل کے حل کے لیے الگورتھم کے اصولوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے تین مراحل تجرید و استخراج (Abstraction) یعنی مسئلے کی نوعیت وساخت، خود کار سازی (Automation) یعنی حل کا اظہار اور تیسرا تجزیہ(Analysis) یعنی مسئلے کے حل کے لیے پیش رفت اور اس کا تجزیہ و جانچ پڑتال ہیں۔ کمپیوٹیشنل سوچ کی تاریخ تو 1950ء سے شروع ہوئی لیکن اس اصطلاح کو سب سے پہلےافریقی نژاد امریکی ریاضی داں،کمپیوٹر سائنس داں اور ماہرِ تعلیم سیمور پیپٹ نے1980ء میں وضع کیا،جو مصنوعی ذہانت کے بانیوں میںشمار ہوتے ہیں۔

بچوں کی تعلیم میں استعمال

کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر کمپیوٹر سائنس، جینیٹی میری ونگ نےہر ایک بچے کی تعلیم کے لیے کمپیوٹیشنل سوچ کا استعمال کرتے ہوئےK-12کو نصاب کا لازمی جزو قرار دیا۔ اس میں بچوں کو سائنس، ریاضی، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے مضامین پڑھانے کے لیے کلاس روم میںکمپیوٹیشنل تھنکنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

کمپیوٹیشنل سوچ کا اطلاق سائنسی علوم کے ساتھ سماجی علوم اور زبان و لسانیات میں بھی ہوتاہے۔کئی ملکوں میں طالب علموں کو کمپیوٹیشنل سوچ سے متعارف کروایا گیا ہے۔ ان میں برطانیہ صف اوّل پر ہے، جس نے2012ء سے اپنے قومی نصاب کو اکیسویں صدی کے اجزاء سے متصف کیا ہے۔ دیگر ممالک میں سنگاپور، آسٹریلیا، چین،کوریا، امریکا اور نیوزی لینڈ ہیں، جہاںبڑے پیمانے پر اسکولوں میں کمپیوٹیشنل تھنکنگ کو متعارف کروانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

کمپیوٹیشنل سوچ کا مستقبل

آئندہ برسوں میں تعلیم و تدریس کا شعبہ کمپیوٹیشنل سوچ پر مبنی ہوگا، جس کے اثرات مستقبل کے تمام کیریئرز پرمرتب ہوں گے۔ استاد، وکیل، تاجر، کسان یا پھر معالج کمپیوٹیشنل سوچ اور ادراک کے بغیر کچھ نہیں کر پائیں گے۔اس وقت بھی کمپیوٹر سائنس کا مستقبل تابناک ہے،جہاں انٹرپرینیورز سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر ٹیکنالوجی کی بدولت ای کامرس پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں بلاشبہ مصنوعی ذہانت کا قائدانہ کردار اہمیت کا حامل رہے گا۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ جس طرح سائنسی علوم کی تدریس و تحقیق کمپیوٹر میں ڈھل رہی ہے، ساتھ ہی پیداوار کو بڑھانے کے لیے مارکیٹ رجحانات کے تجزیے کمپیوٹر کے استعمال سے ممکن ہوگئے ہیں، اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ہم نصابی کتابوں سے کہیں آگے اس کمپیوٹیشنل سوچ کے مالک ہوں گے، جہاں کسی بھی معلومات تک رسائی اور اس کی صداقت کو جانچنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگا۔ ایجوکیشن انالائٹکس ،سینسر پر مبنی ادویہ، کمپیوٹیشنل کنٹریکٹس یا پھر کمپیوٹیشنل ایگری کلچر، اب آپ کوتمام علوم کی معلومات و تحقیق کے لیے کمپیوٹیشنل سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔

اسمارٹ لرننگ کا جدید انداز

اگر آپ بیدار ذہن اور دلچسپی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اکیسویں صدی میں آپ کو کمپیوٹیشنل سوچ کو بڑھانا ہوگا، جس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ رٹا لگانے کے بجائے چیزوں کو سمجھناہے۔ اسمارٹ لرننگ کے اس جدید انداز کے مستقبل پر دیرپا اثرات ہوں گے۔ مستقبل میں جب ہر چیز خود کار ہوجائے گی تو ہمیں وہی شعبے بچا پائیں گے، جن میں کمپیوٹیشنل سوچ کا عمل دخل ہے۔

برطانیہ کے قومی نصاب میں کمپیوٹیشنل سوچ کے اطلاق نے تعلیم و تدریس میں انقلاب برپا کردیا ہے۔اسی طرز کو پاکستان میں بھی اب پرائیویٹ اسکول ،کالج اور یونیورسٹیاں اپنا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب بچوں کے ہاتھ میں صرف کاغذ قلم دوات ہوا کرتی تھی، تاہم اب ان کے پاس ٹیبلٹس، اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ ہیں۔

نصاب سے آگے کمپیوٹیشنل سوچ

کمپیوٹیشنل سوچ کا اطلاق کسی بھی طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال پر مبنی ہے، وہ پیچیدہ مسائل کو خالص ریاضیاتی بنیادوں پر حل کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس صلاحیت کو استعمال کرنے والا کمپیوٹر پروسیس اور پروگرامنگ کی طاقت اور تصورات کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ صرف سافٹ ویئر ،ہارڈ ویئر انجینئر نہیں ہوتا بلکہ کمپیوٹر کی مکمل تعمیر سازی پر ملکہ رکھتا ہے۔

کمپیوٹیشنل سوچ ہر بچے کی تجزیاتی و ناقدانہ سوچ پر مبنی ہے، تاہم انسانی تخیل کے آگے کمپیوٹیشنل سوچ بھی محدود ہے۔ مسائل کو سوچنے، حل کرنے کی کمپیوٹری صلاحیت مصنوعی ذہانت کے ساتھ مل کر بھی انسانی ذہن کا مقابلہ نہیں کرسکتی، جو عدم سے وجود کی حیرت انگیز طاقت رکھتا ہے اور مسائل کو سوچنے کی یہی عادت آپ کو طے شدہ دائرے اور نصاب سے کہیں آگے تخلیقی صلاحیتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔