سستی سیاستیں !

November 26, 2020

پہلی بات ،اللہ تعالیٰ بیگم شمیم اختر کی مغفرت فرمائے، درجات بلندکرے، خاندان کو صبر عطا فرمائے، بیگم شمیم اختر اک ماں اور ماواں سانجھیاں، دوسری بات، یہ سمجھ میں نہ آئے کہ مریم نواز نے یہ ٹوئٹ کیوں کیا کہ’’ کسی حکومتی شخص میں اتنی انسانیت نہیں تھی کہ مجھ تک دادی کی وفات کی اطلاع پہنچا دیتا‘‘، مریم نواز سے پوچھنا حکومت کی کب سے یہ ڈیوٹی لگی ہوئی کہ وہ جلسوں میں جا کر فوتیدگیوں کی اطلاع دے ، اب سب کہیں گے ،اخلاقی طور پر ہی یہ اطلاع پہنچا دی جاتی ،اس کا جواب یہ ، جس حکومت کو مریم نواز غیر آئینی ، غیر قانونی کہہ رہی ، جس حکومت کے وہ وجود سے ہی انکاری ، جس حکومت کے سربراہ عمران خان کا نام لینا بھی انہیں گوارہ نہیں اور جسے گھر بھجوانے کیلئے وہ سڑکوں پر ، وہ حکومت انہیں اطلاعیں پہنچائے، حکومت نہ ہوئی مزارع ہوئی ، گالیاں بھی کھائے اور کام بھی کرے، چلو اگر کوئی حکومتی شخص آدھا گھنٹہ پہلے اطلاع کر بھی دیتا تو بھی مریم نواز نے کر کیا لینا تھا، بیگم صاحبہ لند ن میں فوت ہوئیں ،یہ پاکستان میں ،آدھا گھنٹہ پہلے یا بعد میں اطلاع ملنے سے کیا فرق پڑجاناتھا۔

تیسری بات ، چلو مریم نواز نے ٹوئٹ کر دیا، اب حکومتی ترجمانوں کو چاہیے تھایہ ٹوئٹ نظر انداز کر دیتے مگر آفرین ہے ان ترجمانوں پر جنہوں نے فوتیدگی ٹویٹ پر بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا، انہیں ذرہ بھر احساس نہ ہوا کہ یہ وقت طعنے بازی ، سستی سیاست کا نہیں ،مگر کیا کریں، دونوں دھڑوں نے سستی سیاست کی اوردکھ کی بات ،اب مرگ ،میت پربھی بڑے دھڑلے سے سیاست ہو، بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر اک ماں کے احترام میں نہیں کہہ رہا، یہ بھی نہ لکھتا اگر اس سستی سیاست سے دل دکھی نہ ہوتا، مقصد اس سستی سیاست کی نشاندہی نہ ہوتا۔بات آگے بڑھاتے ہیں ،مریم نواز صاحبہ یہ بھی بتا رہیں کہ میں نے نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے جسدِ خاکی کے ساتھ واپس نہ آئیں کیونکہ یہ حکومت حسد، انتقام میں اندھی ہوچکی ،یہاں ظالم لوگوں کی حکومت ، آپ بالکل نہ آئیں، پھر سے سستی سیاست، پھر سے جھوٹ ، میاں صاحب نے پہلے کب آجا نا تھا، میاں شریف فوت ہوئے، جنرل پرویز مشرف نے شریف برادران کو کہلوا بھیجا کہ اگر آپ اپنے والد کی میت کے ساتھ آنا چاہیں تو ضرور آئیں، کچھ دوست یہ بھی بتائیں کہ پرویز مشرف نے خود فون کر کے شریف برادران کو یہ آفر دی، مگر شریف برادران نہ آئے ، بیگم کلثوم نواز فوت ہوئیں تو حسن نواز،حسین نواز نہ آئے اور اس بار نواز شریف نہیں آرہے، مطلب میاں شریف فو ت ہوئے ان کے بیٹے نہ آئے ،بیگم کلثوم صاحبہ فو ت ہوئیں انکے بیٹے نہ آئے، اس بار نوازشریف نہیں آرہے ، کس نے آنا ہے، کس نے نہیں ، یہ فیصلہ شریف فیملی کا ،مگر کہنا یہ، مظلومیت کارڈ کھیلنے سے کیا ملے گا، یہ وقتی ،یہ عارضی،ایسی باتیں صرف تقریروں ،بھاشنوں کا ایندھن، اس سے آگے کچھ نہیں ، ہر موقع پر جھوٹ ، یہ اچھا نہیں ہوتا۔

اب آجائیں دوسرے موضوع پر، پچھلے کابینہ اجلاس میں پتا چلا کہ ہماری حکومتیں اپنے بین الاقوامی کیسوں کیلئے ملکی وغیر ملکی لیگل کمپنیوں کو تقریباً 50ارب ادا کرچکیں ، کتنے کیس جیتے ، کیا کچھ پاکستان کو ملا، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک وکیل کو 25کروڑ اد ا کئے گئے اور وکیل صاحب وہ کیس بھی ہارگئے ، یہاں دل چاہ رہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مبینہ ملاقات کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات پر لکھوں ،گو کہ سعودیہ اس ملاقات کی تردید کر چکا مگر اسرائیلی میڈیا تو یہ تک بتا رہا کہ اتوارکو تل ابیب بین الاقوامی ائیر پورٹ سے گلف اسٹریم نجی جیٹ طیارہ 5بجکر 40منٹ پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور موساد چیف کو لیکر سعودی شہر نیوم کیلئے روانہ ہوا، طیارہ نیوم میں 6بجکر 30منٹ پر اترا ، ملاقات کے بعد طیارے نے 9بجکر 50منٹ پر نیوم سے واپس تل ابیب کیلئے اڑان بھری، ایک اور رپورٹ کے مطابق یہ ملاقات 5گھنٹے پر محیط تھی، اگر یہ ملاقات ہوچکی تو اس کے اثرات ہم پر کیا پڑیں گے ،کیا ہم پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھے گا، دل چاہ رہا، یہ بھی لکھوں کہ کیا وجہ ہم نے تو سعودی اور متحدہ عرب امارات کے شہزادوں کی گاڑیاں خود ڈرائیو کیں ، سعودی ولی عہد نے تو کہا تھا کہ میں سعودیہ میں پاکستان کا سفیر ہوں پھر کیوں آج ہمارے تعلقات اچھے نہیں ،کیا یہ طیب اردوان دوستی، ایران، امریکہ میں ثالثی کروانے کی خواہش کا نتیجہ، کیا یہ کوالالمپور کانفرنس میں جانے کے اعلان ،شاہ محمود قریشی کے متنازعہ بیان یا ارطغرل ڈرامے کا نتیجہ، کیا ہمیں ترکی، ایران ،قطر کیمپ کارکن سمجھا جا چکا ، کیا ہم پر یو اے ای کی ویزا سختی کورونا کیوجہ سے یا اسکے پیچھے کچھ اور، اگر سعودیہ ،یوا ے ای سے تعلقات بگڑ گئے تووہ لاکھوں لوگ جو ان ممالک میں کام کررہے اور وہ 10گیارہ ارب ڈالر زر مبادلہ جو ان دونوں ممالک سے آرہا اس کا کیا بنے گا۔

تیسرا موضوع، پچھلے کابینہ اجلاس میں ریپ مجرموں کو نامرد بنانے، خواتین پولیسنگ ،فاسٹ ٹریک مقدمات کے فیصلے ہوئے ، دوست زاہد گشکوری کی تحقیقی رپورٹ بتائے کہ گزرے 6سالوں میں 22ہزار 37زیادتی کیس رپورٹ ہوئے جبکہ صرف 77مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں، تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ 22ہزار 37 کیس بھی اصل کیسوں کا نصف، سماجی ومعاشرتی دباؤ اور نظام کی خامیوں کی وجہ سے آدھے سے بھی کم زیادتی کیس رپورٹ ہو پائے ، جب ملک میں یہ صورتحال ہو تو یقیناً خصوصی قانون سازی، خصوصی پراسیکیوشن، تفتیش ،خصوصی عدالتیں اور مقررہ وقت کے اندر عبرتناک سزائیں ضروری ہوجائیں ، کابینہ اجلاس میں فیصل واوڈا ،اعظم سواتی اور نورالحق قادری نے زیادتی مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی حمایت کی جبکہ فروغ نسیم نے بتایا کہ سپریم کورٹ اور شرعی عدالت سرعام پھانسی سے منع کرچکیں ، اگر ہم نے سرِعام پھانسی دینی تو ہمیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑ یگا، بہرحال سرِعام پھانسی ہویا نامرد کرنا، سزاعبرتناک ملنی چاہئے اور مقررہ وقت کے اندر ملنی چاہئے۔