پی ڈی ایم کی تحریک اور انتخابی اصلاحات

November 28, 2020

گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اس بات کا تہیہ کیا ہوا ہے کہ سیاست کو سماجی تبدیلی کا محرک نہیں بننے دیا جائے گا۔دوسری طرف پی ڈی ایم نے بھی ان نتائج سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک منظم حریف کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی پارٹیاں ایک اتحاد بنا کر یہ الیکشن لڑتیںلیکن یوں لگتا ہے کہ سیاسی تنزلی اس سماج کو بہت عرصے تک ارتقا پذیر نہیں ہونے دے گی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آزاد اور شفاف الیکشن کے بغیر آئینی بالادستی کا تصور پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتااور نہ ہی آئین کی پاسداری کے بغیر محکوم قوموں اور مظلوم طبقات،جن میں مزدور، کسان، عورتیں ، اقلیتیں اور طالب علم شامل ہیں، کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی جہاں الیکشن کے دن دھاندلی کا بار بار ذکر کیا جا رہاہے وہیں پری پول رگنگ بھی کسی بدنما داغ کی شکل میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے بھی بڑے واضح طور پریہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جب جنوبی پنجاب سے بہت بڑی تعداد میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدواروں نے نہ صرف اپنے ٹکٹ واپس کر دئیے بلکہ بعض نے تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابات لڑے۔گلگت بلتستان کے الیکشن بھی اُسی کا تسلسل دکھائی دیے جب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر جیتنے والے چھ امیدواروں، جن میں دو سابق وزیر اور اسپیکر بھی شامل تھے ،نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسا کسی کے ایما اور مدد پر ہوا ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ عوام کی اب ساری امیدیں پی ڈی ایم کے’’ میثا ق پاکستان‘‘ سے لگی ہوئی ہیں۔گوکہ پی ڈی ایم کا’’ میثاق پاکستان‘‘ ،’’ میثاق جمہوریت‘‘ سے دو قدم آگے بڑھ کر اس سماج کو ایک پختہ سیاسی عمل کی طرف رواں دواں کر سکتاہے جس میں خاص طور پر پاکستان میں وفاقیت کی پاسداری ،اٹھارہویں ترمیم،سیاست سے اداروں کے کردار کا خاتمہ اور آزاد عدلیہ کے قیام کا عندیہ شامل ہے۔

پی ڈی ایم کی تحریک نے اپنے آئندہ لائحہ عمل کے طورپر ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں ، تاجر برادری،مزدوروں اور کسانوں کی انجمنوں سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے کیونکہ ان کی تحریک میں ہڑتالیں ،شٹر ڈائون اور لانگ مارچ کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے تمام مکاتب فکر کی اِس میں نمائندگی ہو۔ اسی لیے امید کی جارہی ہے کہ میثاق پاکستان میں جہاں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے مطالبات شامل ہونگے وہاں طلبا یونین کی بحالی کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے نئی انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کو دعوت دی ہے جس میں خاص طور پر سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈز سے کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں مرحوم حاصل بزنجو جونہ صرف حزب اختلاف کے امیدوار تھے بلکہ انہیں چونسٹھ سینٹرز کی حمایت بھی حاصل تھی جنہوں نے الیکشن والے دن ہاتھ اٹھا کر اس کا اعلان بھی کیا تھا۔

حزبِ اختلاف نے حکومت سے اس سلسلے میں براہ راست بات چیت کی بجائے معاملہ پارلیمنٹ میں موجود انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے سپرد کرنے کو کہا ہے ۔اب جبکہ عمران خان نے انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور دوسری طرف پی ڈی ایم نے بھی میثاق پاکستان کے بنیادی اصول وضع کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اصلاحات اور انعقاد کا اصول واضح کیا ہے ،اس لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے نناوے فیصد عوام یعنی ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں کو بھی اس پراسیس کا حصہ بنایا جائے تاکہ پارلیمنٹ میں مظلوم طبقات کی نمائندگی ہو سکے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آئینی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ طبقۂ اشرافیہ ہے جو پچھلے تہتر سال سے اپنی وابستگیاں تبدیل کرتا آرہا ہے۔یہ سیاسی جماعتوں کے حق میں ہی ہوگا کہ وہ پاکستان کے نناوے فیصد طبقات کو پارلیمنٹ کا حصہ بنائیں تاکہ آئین کی بالا دستی کی راہ میں رکاوٹوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکے۔الیکشن ایکٹ کے تحت صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی فیسیں دو ہزار اور چار ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار اور چالیس ہزار کر دی گئی ہے اور الیکشن کے اخراجات پانچ لاکھ سے بڑھتے بڑھتےآج پچاس لاکھ تک پہنچا دئیے گئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے یہ فیسیں اور اخراجات ننانوے فیصد عوام کی بساط سے باہرہیں جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔جتنی تیزی کے ساتھ عوام کی اپنے ملک اور اس کی سیاست سے بیگانگی ختم ہو گی اتنی ہی تیزی سے پورا سماج سیاسی ارتقا کا حصہ بنے گا۔ یہی سبق یورپین تاریخ ہمیں سکھاتی ہے اور اس سے استفادہ کیے بغیر صرف یہ کہنا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہیں محض خود فریبی ہو گا۔