ہماری نئی کشمیر پالیسی کتنی کامیاب ہوگی؟

December 04, 2020

مسئلہ کشمیر سات عشروں سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت زیر التوا ہے۔ جواہر لال نہرو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خود اقوام متحدہ گئے۔ جنرل اسمبلی نے قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت سے کہا کہ وہ استصوابِ رائے کا انتظام کرے، لیکن اس کے بعد سے بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا شروع کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد 1955میں اپنے آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر پر تسلط جمالیا۔ اس مسئلے پر تین پاک بھارت جنگیں ہوچکی ہیں۔ 95ہزار سے زائد کشمیریوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اسی تنازعے کی وجہ سے 71میں ہم نے اپنا ایک بازو کٹوادیا۔ 1999میں کارگل کے مسئلے پر شدید لڑائی ہوئی۔ 2004میں پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم واجپائی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کافی کوششیں کیں۔ پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان کشمیر پر ایک معاہدہ ہونا تھا، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ مشرف کے جانے کے بعد زرداری حکومت نے آتے ہی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ٹھانی، لیکن 26نومبر 2008کوممبئی کا سانحہ رونما ہوا۔ بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔ یہ مسئلہ اتنا اُلجھا کہ قریب تھا پاک بھارت جنگ پھر چھڑجاتی، لیکن بچ بچائو ہو گیا۔ انہی دنوں بھارت نے پاکستان کا پانی بھی روک لیا۔ جب حالات کشیدہ اور گھمبیر ہوئے تو پاکستان نے پہلے امریکا کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ امریکا نے مسئلہ کشمیر اور پانی کے تنازع پر ثالثی سے صاف صاف انکار کردیا۔ پھر پاکستان نے اپنے دیگر دوستوں کی طرف دیکھا۔ پاکستان نے سعودی عرب، چین اور او آئی سی کو کردار ادا کرنے کیلئے کہا۔ انہی دنوں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے 38سال بعد سعودیہ کا پہلی دفعہ دورہ کیا تھا۔ اس دوران سعودی عرب نے بھارت کو مسئلہ کشمیر، پانی اور دہشت گردی سمیت تمام مسائل کو افہام وتفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ اسی پس منظر میں تاجکستان کے دارالحکومت ’’دوشنبے‘‘ میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا تھا۔ اس میں او آئی سی نے کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خود ارادیت سے کی حمایت کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات اور حقوق کا احترام کرے۔ اس کے جواب میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’قراردادوں کے بجائے او آئی سی کھل کر کشمیریوں کی حمایت کرے۔ او آئی سی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حق میں مشترکہ قرارداد پیش کرے تو یہ مسئلہ چند دنوں میں حل ہو سکتا ہے‘‘۔ بے شک اُن کی بات میں وزن تھا کہ او آئی سی مسلم دنیا کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرے۔ اپنے آپ کو اس قدر توانا اور مضبوط بنائے کہ عالمی طاقتوں سے اپنی بات منوا سکے۔ کون نہیں جانتا مغربی ممالک کی معیشت کا انحصار اسلامی ممالک کے وسائل اور اُن کے ساتھ تجارت پر ہے۔ امریکی معیشت میں سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستیں حصہ دار ہیں۔ دبئی کے حکمران امریکا میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔ یہ چاہیں تو ان کی معیشت کا پہیہ روک سکتے ہیں اور ان طاقتوں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروانے میں مدد کریں۔ وہ کہہ سکتے ہیں پاکستان اور ہندوستان آخری حدوں تک جاکر نزاع کا باعث بننے والے اپنے مسائل حل کریں۔ اُس کے لئے اصل قربانی ہندوستان کو دینا پڑے گی۔ مذاکرات نتیجہ خیز اس وقت ہوں گے جب پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کی جائیں۔ مذاکرات برابری کی سطح پر ہوں اور مذاکرات میں کشمیر، پانی اور دہشت گردی جیسے مسائل میں لچک دکھائی جائے۔ مسئلہ کشمیر اور مختلف مسائل کے حل کے لیے 72برسوں میں پاک بھارت سربراہان، وزرا، سیکرٹریوں ہر سطح پر مذاکرات ہوئے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سربراہی ملاقاتوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو وہ 52کے قریب بنتی ہیں۔ 1947میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے لے کر اب تک مذاکرات ناکامی ہی کی طرف جاتے رہے ہیں۔ اب دوبار ہ کشمیر آگ میں جل رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی درندگی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت کے خلاف ہونے والا احتجاج مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ مسلم دنیا میں بھارتی مظالم اور عالمی اداروں اور طاقتوں کی خاموشی پر غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس موقع پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا، اقوام متحدہ، برطانیہ اور دیگر بااثر طاقتیں بیچ میں پڑکر 72برسوں سے سلگتا ہوا مسئلہ کشمیر حل کروانے میں مدد کرتیں، لیکن عالمی ٹھیکیداروں کے لب پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے دوغلی پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں۔ دیکھیں! مشرقی تیمور کو اسلامی ملک انڈونیشیا سے الگ کرکے راتوں رات مسیحی ریاست بنادیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامی ملک سوڈان کے ایک حصے کو توڑ کر مسیحی ملک بنتے دیر نہیں لگتی، لیکن دوسری طرف مسئلہ کشمیر بدستور سلگ رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی یہی وہ دوغلی پالیسی ہے جس کی وجہ سے دنیائے مسلم امریکا سے شکوہ کناں ہے۔کشمیریوں کو چاہئے وہ سول نافرمانی کی تحریک اس وقت تک چلائیں جب تک وہ آزاد نہیں ہو جاتے۔ موجودہ حکومت کی نئی کشمیر پالیسی یہ ہے کہ کشمیر کاز کو پوری دنیا میں اُٹھایا جائے، کشمیریوں کو اندر سے مضبوط کیا جائے اور کشمیری جہادی تنظیموں کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف اپنی آزادی کے لیے ہی برسرِ پیکار رہیں گی۔ وزیراعظم عمران خان نے پوری دنیا میں کشمیر مسئلے کو اہم ایشو بنا دیا ہے۔ وہ ہر اہم فورم پر کشمیر کی آواز کو منظم طریقے سے پہنچا رہے ہیں۔ اگر اسی طرح کشمیر پالیسی قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب عالمی طاقتیں کشمیر کی آزادی کو تسلیم کر لیں گی اور بھارت کو مجبور کریں گی کہ وہ کشمیر سے دستبردار ہو جائے۔