تلچھٹ کی جلوہ آرائی

December 11, 2020

ایک طرف موت کا فرشتہ ہماری بلند نگاہ سیاسی، صحافتی اور علمی شخصیتوں کی روحیں قبض کرکے ایک ہولناک خلا پیدا کر رہا ہے جبکہ دُوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تباہی کو دعوت دینے والی محاذ آرائی فضا میں زہر گھول رہی ہے۔ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھے جاتے ہیں اور ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ اصولوں، تہذیبی قدروں، جمہوری رویوں اور مکالموں کی خوشبوؤں کا زمانہ لَد گیا ہے۔ سردار شیر باز مزاری اَور میر ظفر اللہ خان جمالی بےطرح یاد آتے ہیں کہ اُنہوںنے سیاست میں شرافت، متانت، مروت اور صداقت کا بول بالا رکھا اور خطرات کی یلغار میں بھی جمہوریت کا ساتھ دیا۔ شیر باز خاں مزاری نے تو اپنی سیاست کا آغاز ہی محترمہ فاطمہ جناح کی مکمل حمایت سے کیا۔ یہ اُن چند بیدار مغز سیاست دانوں میں شامل تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی پُرزور مخالفت کی تھی اور اِنتخابات کے بعد اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 1970میں اُنہوں نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اَور پیپلزپارٹی کے سیلاب کے باوجود کامیابی حاصل کی۔ دستور کو متفقہ بنانے میں اُنہوں نے سرگرم حصّہ لیا، جبکہ راقم الحروف اَور مصطفیٰ صادق نے اُن کی ہر طرح اعانت کی تھی۔ اِسی تعلق کی بدولت اُن کی میرے ساتھ گہری وابستگی پیدا ہو گئی تھی، چنانچہ وہ جب کبھی لاہور آتے، میرے غریب خانے پر ضرور تشریف لاتے۔ وہ اُن چند سیاسی قائدین میں سے تھے جو کتابوں سے عشق کرتے تھے اور دَانش کشید کرتے تھے۔

میر ظفر اللہ خان جمالی کا خاندان قائدِاعظم کا سپاہی تھا۔ اُن کے چچا میر جعفر خان جمالی نے بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت میں یادگار کردار اَدا کیا تھا اور رَوزنامہ ’کوہستان‘ جاری کر کے عوام کے اندر اِسلامی شعور پھیلایا۔ ظفر اللہ جمالی صاحب 2002کے انتخابات میں چوہدری برادران کی حمایت سے وزیرِاعظم بنے جبکہ جنرل مشرف سیاہ و سپید کے مالک تھے۔ جمالی صاحب سویلین بالادستی قائم کرنے کے لیے اپنی سی کوششیں کرتے رہے۔ اُن کا یہ جرأت مند اقدام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جا چکا ہے کہ اُنھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ درخشندہ رَوایت بھی قائم کی کہ جب اُن کے لیے جنرل مشرف کے ساتھ چلنا محال ہو گیا، تو اَپنا استعفیٰ فوجی سربراہ کے بجائے چوہدری شجاعت حسین کی خدمت میں پیش کیا جو مسلم لیگ (ق) کے صدر تھے۔ مَیں اُس تقریب میں شریک تھا۔ مزاری اَور جمالی یہ دونوں عظیم قائد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وہ اُونچی مسندوں پر جلوہ گر ہوں گے۔

اِسی طرح پچھلے ماہ دارِفانی سے کوچ کرنے والے ناظم شاہ کی مغفرت کے لیے بھی بےاختیار ہاتھ اُٹھتے ہیں۔ اُن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ وہ اَپنے شائستہ اور متوازن رَویوں سے ہر حلقے میں مقبول تھے اور سیاسی رواداری کا ایک حسین مرقع تھے۔ گزشتہ ماہ نومبر میں کالم نگاری کے شہنشاہ جناب عبدالقادر حسن اور صحافتی دنیا میں جرأت اَور صداقت کے پیکر جناب سعود ساحر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ہم اُن کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں اور اَللہ تعالیٰ سے اُن کی بلندیِ درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اِنھی دنوں ایک انتہائی فرض شناس اور دَیانت دار بیوروکریٹ اور اُردو کے مایہ ناز اَدیب جناب مسعود مفتی دارِبقا کی طرف کوچ کر گئے۔ اُنہوں نے 1971کے آخری چھ ماہ مشرقی پاکستان میں سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں اور جنگی قیدی بن گئے تھے۔ اُس عہد کی تفاصیل اپنی گرانقدر تصنیف ’چہرے اور مہرے‘ میں قلم بند کی ہیں۔ اُن کی نگاہوں نے مکالمے کا دروازہ بند ہوتے، طاقت کو ستم ڈھاتے اور پاکستان کو ٹوٹتے دیکھا تھا۔ 49برس بعد ہم اُسی تاریخ کی طرف بڑھتے دِکھائی دیتے ہیں۔ ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے خوفناک نتائج سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں اور گمبھیر خلا کو پُر کرنے کا عظیم کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔

قوم کو 1970-71میں جو مسئلہ درپیش تھا، وہی 2018سے ہماری سیاست میں تلخیاں گھولنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے فیصلہ رقم کیا گیاہے کہ مارشل لا کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن کی انتخابی کامیابی کے لیے انتظامات کیے تھے۔ مارشل لا حکومت میں مخالف جماعتوں کے انتخابی جلسے درہم برہم کیے جاتے رہے، عوامی لیگ کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹرز پولنگ اسٹیشنز تک پہنچنے نہیں دیے گئے اور اِنتظامیہ عوامی لیگ کے امیدواروں کے بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگاتی رہی۔ اِس ہیرپھیر کے نتیجے میں جب عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی 162میں سے 160نشستیں جیت لیں، تو انتقالِ اقتدار کا بحران پیدا ہو گیا جس کے دوران جنرل یحییٰ خان درپردہ یہی کوشش کرتے رہے کہ سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاقِ رائے پیدا نہ ہو سکے اور اِقتدار اِنہی کے ہاتھ میں رہے۔

آج ہر شخص جانتا ہے کہ مئی 2018کے انتخابات میں کیسے کیسے غیرمعمولی واقعات رونما ہوئے تھے۔ ایک جماعت کو اقتدار سونپنے کے لیے غیرسیاسی طاقتوں نے کیسے کیسے حربے استعمال کیے۔ اُن کے دباؤ پر پہلی بار اُمیدواروں نے اپنی جماعت کے ٹکٹ واپس کر دیے تھے اور کس طرح راتوں رات جنوبی پنجاب گروپ وجود میں آیا تھا اور کس طرح اُن کی تائید سے جہانگیر ترین آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے ممبران کو اپنے جہاز پر بنی گالہ ڈھوتے رہے تھے۔ ووٹوں کی گنتی کے وقت اکثر مقامات سے پولنگ ایجنٹس باہر نکال دیے گئے تھے۔ اب یہی ایشوز سیاسی محاذآرائی کو ہوا دَے رَہے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان بظاہر بہت گرج برس رہے ہیں، مگر اُن کے موقف میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ 13دسمبر کے مینارِپاکستان پر ہونے والے جلسے سے خائف ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈائیلاگ کا اشارہ بھی دے دِیا ہے۔ اُن کا اشارہ تو حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں پر لازم آتا ہے کہ وہ موسم دیکھیں اور وَقت کی دھار دَیکھیں۔ اُنہیں ٹھہر کر 16دسمبر 1971کے سانحے کی روشنی میں اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنے کے ساتھ ساتھ آئینی اداروں اَور طریقوں کو اسپیس دینا ہو گی۔