بدحالی سے خوشحالی،آئیے قدم بڑھائیں

May 14, 2013

پاکستان میں مختلف خدشات اور خطرات کے سائے میں بالآخر عام انتخابات مکمل ہوگئے جس میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کو قومی اسمبلی اور پنجاب میں واضح برتری حاصل ہوگئی ۔یہ1997ء کے مینڈیٹ کی طرح تو نہیں ہے مگر موجودہ حالات میں ہر لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اب مسلم لیگ(ن) کسی اتحادی کے بغیر اسلام آباد کا نظام چلائے گی جس سے مختلف بین الاقوامی اور قومی ایشوز پر دیگر جماعتوں کی بلیک میلنگ سے بھی ان کی جان چھوٹ جائے گی۔ یہی چیز میاں نواز شریف چاہتے تھے۔ انتخابات میں عوام نے انہیں مینڈیٹ دیدیا ہے جس کے بعد اب بال میاں نوازشریف کی کورٹ میں ہے۔
حالیہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 61فیصد رہا جو کہ بھارت کے حالیہ تین انتخابات کی شرح58فیصد سے زائد رہا۔ برطانیہ کے حالیہ تین انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح61فیصد رہی۔ اس طرح پاکستان میں ریکارڈ ٹرن آؤٹ ہوا جس میں زیادہ نوجوان ،بزرگ اور خواتین کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا۔ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات رہے۔ ان میں سرکاری اور غیرسرکاری اخراجات4ارب ڈالر (400 ارب روپے)سے زائد رہے۔ فی ووٹر لاگت9ہزار روپے کے قریب رہی جو6ہزار سے8ہزار روپے کم از کم تنخواہ سے 12فیصد سے15فیصد رہی۔ حالیہ انتخابات میں سابق حکمران جماعت کو معاشی اور سماجی شعبوں میں ناقص کارکردگی کی بنیاد پر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا جس پر پیپلز پارٹی کے کارکن جو کہتے تھے ایک زرداری سب پر بھاری، اب انہیں یہ سننا پڑرہا ہے کہ ایک زرداری پیپلز پارٹی پر بھاری، اس طرح صدر زرداری ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ،کیا حالیہ نتائج نے ان سے تو کوئی انتقام نہیں لے لیا۔ حالیہ انتخابات میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی بڑی مہنگی اور رنگین مہم سے عوام نے خوب لطف اٹھایا مگر فیصلہ وہی دیا جو انہوں نے سوچ رکھا تھا۔
دوسری طرف انتخابی مہم کے دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں40فیصد تک اضافہ سامنے آیا۔اس کے علاوہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے خصوصی ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے کئی سو ڈالرروزانہ کے اخراجات ہوئے۔ اب عام انتخابات ہوچکے ہیں اسلام آباد کو میاں نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کا انتظار ہے جبکہ پوری قوم کو انتخابی مہم میں کئے جانے والے وعدے(خاص کر معاشی مسائل کے حوالے سے) پورے کرنے کا انتظار ہے۔ اس وقت نئی حکومت کو ایک سے زیادہ معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا جس میں خارجی اور داخلی دونوں ہی بڑے اہم ہیں۔ قابل ذکر اقتصادی ایشوز میں ادائیگیوں کا توازن، بجٹ خسارہ، توانائی کا بحران اور فوری طور پر مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی شامل ہیں۔
ان سب سے بڑھ کر بڑا مسئلہ امن و امان کی بحالی کا ہے جس کیلئے امریکہ پاکستان بزنس کونسل کے چیئرمین Miles yoanنے پچھلے ماہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے خاصی تشویش ہے لیکن اس کے باوجودامریکی کمپنیاں پاکستان کے کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار چند ہفتے قبل لاہور میں امریکی سفیر بھی امریکن بزنس فورم کی تقریب میں کرچکے ہیں۔ یو ایس پاکستان بزنس کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ دونوں ممالک میں جلد ہی باہمی سرمایہ کاری کے معاہدہ(BIT)پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔2006ء میں اس پر صدر مشرف کے دور میں صدر بش کے دورے کے موقع پر دستخط ہوتے ہوتے رہ گئے تھے لیکن پاکستان کی طرف سے چند اعتراضات کی وجہ سے اسے موخر کردیا گیا تھا۔ اب نئی حکومت کو چاہئے کہ میاں نواز شریف جب اس سال کی آخری سہ ماہی میں امریکہ کے دورے پر جائیں تو انہیں امریکی حکام سے اس حوالے سے تمام امور پر مزید بات چیت کرنی چاہئے۔
مسلم لیگ (ن)کو عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ابتدائی مہینوں میں توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں جسے خود میاں نواز شریف ”بدبخت“ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے واپڈا کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیویشن لاسسز کو کم کرکے 10فیصد تک لایا جائے اور تمام واجبات کی وصولی وفاقی اور صوبائی اداروں اور نجی شعبہ میں تمام بااثر طبقوں سے کی جائے۔ سرکاری اداروں سے واجبات کی وصولی کے لئے فیڈرل ایڈیٹر(FA)وفاق سے صوبوں کو دئیے جانے والے محاصل میں سے کٹوتی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ تھرمل سیکٹر میں300سے400ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے مختلف پاور ہاؤسسز سے600میگا واٹ کی اضافی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بجلی چوری روکنے کے لئے انتظامی سطح پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں مضبوط سیاسی استحکام سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم کی سطح پر اقتصادی ماہرین کا ایک پینل بنایا جائے جیسے امریکہ میں صدر کی اقتصادی ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے اسی طرح یہاں بھی ماہرین کی ٹیم بنائی جائے جو نئے مالی سال کے بجٹ اور مستقبل کی کم از کم پانچ سالہ معاشی پالیسیوں کے لئے گائیڈ لائن فراہم کرے۔ اس کے علاوہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر بجٹ مشاورتی کمیٹیوں اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے۔ نئے متوقع وزیر خزانہ اور اقتصادی امور سینیٹر اسحاق ڈار اس سلسلہ میں فیڈریشن پاکستان بزنس کونسل اور ملک بھر کے تاجروں، زراعت اور دیگر شعبوں کے افراد سے مشاورت کرکے ایک قابل عمل معاشی ایجنڈا مرتب دے سکتے ہیں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے منشور کی بنیاد یہی تھی کہ مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان،اب وقت آگیا ہے کہ نئی حکومت اس حوالے سے عملی ا قدامات کرے جس کے لئے اس کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ”بدحالی سے خوشحالی“ میاں نواز شریف وزیر اعظم بننے کے بعد اس حوالے سے قوم کو اعتماد میں لیں تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاور ت کریں۔ سب مل جل کر ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے قدم بڑھائیں، اس سے پاکستان کے داخلی حالات جب ٹھیک ہوں گے تو بیرونی خطرات اور بیرونی طاقتوں کے مفادات میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے5ارب ڈالر کا کیا قرضہ لیتے وقت بھی ا نہیں دشواری نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑے محتاط طریقے سے تمام اداروں کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب ان کی طرف سے کوئی نیا ایکسیڈنٹ (ٹکراؤ) نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے غیر جمہوری سوچ رکھنے والے سیاسی اور انتظامی عناصر پھر اکٹھے ہوکر جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔