مقامی حکومتیں: قانون سازی ضروری

April 22, 2016

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت بلوچستان اور دارالحکومت اسلام آبادکی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ مقامی حکومتوں کو دو ہفتے کے اندر اختیارات دئیے جائیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس موقع پر یہ بھی استفسار کیا کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کی تکمیل کو ایک برس گزر جانے کے باوجود مقامی حکومتوں کے نمائندگان کو اختیار اور فنڈز کیوں الاٹ نہیں کئے گئے۔آئی سی ٹی، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے مکمل ہونے کے باوجود انہیں اختیارات اور مالی وسائل فراہم کرنا ایک بڑا سیاسی المیہ ہے اور حیرت اس بات پر بھی ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان کے مشاہروں میں تو قابل ذکر حد تک اضافہ کردیا گیا ہے لیکن بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے اور انہیں فنڈز فراہم کرنے کے لئے دونوں میں سے کسی بھی کام کو انجام دینے کے لئے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔اس تناظر میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس حقیقت حال کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں کہ قانون سازی کے بغیر مقامی حکومتوں کے اختیارات کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ڈیڑھ عشرے سے بھی زیادہ عرصے کے بعد بلدیاتی انتخابات کرانے کا ڈول ڈالا ہے مگر اتنی تاخیر کے باوجود ان کو اختیارات دینے کے لئے ضروری اقدامات کرنے میں تساہل سے کام لیا جارہا ہے جس کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا کہمقتدر طبقات اختیارات کی مرکزیت کو ختم کرکے انہیں نچلی سطح تک منتقل کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اس سلسلے میں کوئی موثر قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں ہوتی ہیں اور ان میں تربیت پانے والے آئندہ نمائندے ہی پھر صوبائی و قومی اسمبلیوں میں آکر اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں اس لئے انہیں اختیارات اور فنڈز دینا ایک ناگزیر ضرورت ہے جسے ہر قیمت پر پورا کیا جانا چاہئے۔