سب انسان برابر ہیں

January 03, 2021

ارم فاطمہ، لاہور

یاسرکے والد حسن عبداللہ شہرکی معروف سماجی شخصیت اور بڑے بزنس مین تھے۔ کئی اسکول ان کی زیرسرپرستی چل رہے تھے۔ وہ انتہائی رحم دل اور خدا ترس تھے۔ دیگر دولت مند وں کی طرح ان میں غرور و تمکنت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ غریب خاندانوں کی مالی مدداور اور نادارو ضرورت مندطلبہ کو وظیفہ دیا کرتے تھے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کےاپنے خاندان کا سہارا بن سکیں اور خوش حال زندگی گزاریں۔

یاسر ان کا اکلوتا بیٹا تھا، وہ جتنے شفیق اور رحم دل تھے ، یاسر اتنا ہی مغرور اور بدتمیز تھا۔ وہ بہت ذہین طالب علم تھا مگرکلاس کے دوسرے بچوں کواپنے سے کمترسمجھتا اور ان سے دوستی نہیں کرتا تھا۔

کئی مرتبہ اپنے ابو کے ساتھ وہ شاپنگ کرنے یا آئس کریم کھانے جاتا اور کوئی غریب بچہ بھیک مانگنے یا اپنے میلے کپڑے سے ان کی گاڑی صاف کرنے لگتا تو غصے سے ڈانٹنے لگتا۔ اس کے والد اسے خاموش کرکے نہ صرف اس بچے کو پیسے بلکہ آئس کریم بھی خرید کر دیتے اور یاسر کو سمجھاتے کہ یہ بھی انسان ہیں ان سے نرمی سےپیش آیا کرو۔

ایک صبح جب وہ کلاس میں آیا تو اس نے دیکھا کہ کلاس ٹیچر نے ایک نئے طالب علم کواس کی برابر والی سیٹ پر بٹھایا ہوا تھا۔ یاسر کو اس کے ساتھ بیٹھنا برا لگ رہا تھا مگر وہ خاموش رہا۔نئے داخل ہونے والے بچے کا نام خرم تھا،بہت جلد کلاس کے سارے بچے اس کے دوست بن گئے مگر وہ جب بھی یاسر سے بات کرنے کی کوشش کرتا وہ اسے جھڑک دیتا۔

ایک دن یاسر اسکول سے نکل کر اپنی کار کی طرف جانے کے لیے سڑک پار کرنے لگا تو دوسری طرف سے ایک موٹر سائیکل تیزی سے آرہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے ٹکراتا پیچھے آنےوالے خرم نے اسے دھکا دے کر موٹر سائیکل سے بچالیا جب کہ خو د اس کی زد میں آکر سڑک پر گر گیا،جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔

یاسر کے والد کو اس حادثے کی اطلاع ملی تو وہ زخمی بچے سے ملنے اسپتال گئے ۔ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ خرم ،یاسر کو بچانے کی کوشش میںحادثے کا شکار ہوا ہےتو وہ اس کے بہت مشکور ہوئے ۔انہوں نے ڈاکٹروں کو اس کے علاج معالجے کے لیے خصوصی ہدایات دیں۔

یاسر اب بھی اس سے زیادہ بات نہیں کر تا تھا جانے وہ شرمندہ تھا یا پھر ابھی بھی اس کے دل میں خرم کے لیے دوستی کا جذبہ نہیں بیدار ہوا تھا۔ اسکول میں سالانہ فنکشن تھا، جس کے مہمان خصوصی اس کے والد، حسن عبداللہ تھے۔ انہیں اسٹیج پر بلا کر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی گئی۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ،’’ میرے عزیز بچو! علم سے بڑی دولت کوئی نہیں۔ اس کے لئے لگن اور محنت آپ کوزندگی میں بہت کامیابی دے گی۔علم بانٹنا اور پھیلانا بہت بڑی نیکی ہے۔

مجھے آپ سے بس یہ کہنا ہے کہ جہاں تک ہو سکے علم کی دولت کو دوسروں تک پہنچائیں۔ آپ اپنی کتابیں ردّی میں دینے کی بجائے کسی غریب کودے کر اس کی مدد کر سکتے ہیں۔ اپنے فارغ وقت میں کسی ایسے بچے کو جو اسکول نہ جا سکتا ہو پڑھا سکتے ہیں۔اس طرح غریب بچے بھی پڑھ لکھ کرمعاشرے کے لیے سودمند ثابت ہوسکتے ہیں۔میرے والدین بہت غریب تھےلیکن مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔

میں اسکول کے باہر کھڑا ہو کرحسرت سےدوسرے بچوں کو دیکھ کر سوچتا تھا، کاش میں بھی تعلیم حاصل کرسکتا۔پھر ایک دن ایک بچہ میرے پاس آیا اور اپنی کتابیں مجھے دیں اور کہنے لگا، تم روز شام کو پارک میں آیا کرو، میں تمہیں پڑھایاکروں گا۔ اس نے مجھے بہت محنت سے پڑھایا اورحصول عام میں میری ہر طرح سے مدد کی ۔اس کی مدد سے آج میں اس مقام پر ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ لوگ بھی علم کی روشنی گھرگھرپھیلائیں تا کہ کوئی معصوم بچہ تعلیم سےمحروم نہ رہے۔

یاسر جسے آج پہلی بار پتا چلا کہ اس کے ابو نے زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے کتنی محنت کی ہے جب کہ وہ غریب بچوں کو انسان سمجھنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ یہ باتیں سوچتا ہوا وہ اپنی نشست سے اٹھا اور خرم جو اس سے قدرے فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا، اس کے پاس پہنچ کر اسے گلے لگالیا اوراپنی زیادتیوں کی معافی مانگی۔ وہ جان چکا تھا کہ سب انسان برابر ہیں اور سب سے اچھا وہ شخص ہے جس میں ایثار اور قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کو بھرا ہو۔

اپنی کہانیاں، نظمیں، لطائف، دلچسپ معلومات، تصویریں اور ڈرائنگ وغیرہ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کریں

انچارج صفحہ ’’بچوں کا جنگ‘‘

روزنامہ جنگ،اخبار منزل، فرسٹ فلور، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

ای میل ایڈریس:

bachonkajangjanggroup.com.pk