بین الافغان مذاکرات: قیامِ امن کا نادر موقع!

January 14, 2021

اسلام آباد نے درست طور پر واضح کیا ہے کہ پُرامن افغانستان نہ صرف پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ اِس سے خطے میں تجارت کی راہیں کھلیں گی، بین الافغان امن مذاکرات 19برس سے آتش و آہن کی صورت حال سے دوچار ملک میں قیامِ امن کا نادر و تاریخی موقع ہیں جن سے نہ صرف پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہئے بلکہ اِن عناصر سے چوکنا رہنے کی بھی ضرورت ہے جو افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ مندرجہ بالا جملے خلاصہ ہیں اُس اظہار خیال کا، جو وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ نے افغان حزبِ وحدت اسلامی کے سربراہ، سابق چیئرمین افغان ہائی پیس کونسل اور بلند پایہ شیعہ رہنما استاد کریم خلیلی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں کیا۔ ایسے وقت میں جبکہ قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کے دوسرے باضابطہ دور کا ایجنڈا طے کرنے کے لئے ابتدائی امور طے کئے جارہے ہیں، اسلام آباد کی طرف سے امریکہ طالبان مذاکرات کے آغاز کے وقت سے جاری سہولت کاری کی کاوشیں جاری ہیں۔ ایک طرف افغانستان کے مختلف رہنمائوں سے رابطے کے ذریعے اس ہمسایہ ملک میں پائیدار امن کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں تو دوسری جانب اس امر پر بھی تبادلہ خیال کیا جارہا ہے کہ موجودہ مشکل حالات میں بھی پاکستان افغانستان سے مزید کس کس طرح تعاون کر سکتا ہے۔ پاکستان پہلے بھی اِس بات پر زور دیتا رہا ہے اور اب بھی اس کا یہی موقف ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں، اسے مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جانا چاہئے۔ مقامِ شکر ہے کہ پاکستان کی یہ کوششیں بار آور ہوئیں۔ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ اس کا بڑا ثبوت ہے۔ بین الافغان امن ڈائیلاگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں اور اسی طریقے سے مختلف نسلوں، زبانوں، ثقافتوں کی رنگا رنگی سے مالا مال اس ملک کے لوگ یہ طے کر سکتے ہیں کہ وہ اس ثقافتی گلدستے کو کس طرح زیادہ سجاکر دیرپا امن و استحکام قائم کریں گے۔ اِس ضمن میں گزشتہ مہینے یعنی دسمبر 2020میں طالبان کے سیاسی کمیشن کے 9رکنی وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی سرکردگی میں اسلام آباد کا تین روزہ دورہ کیا۔ اس دورے میں وفد نے نہ صرف پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے بامعنی بات چیت کی بلکہ اسی دوران افغان صدر اشرف غنی کی وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر گفتگو میں افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کی سہولت کاری کی تعریف کی گئی۔ کابل سے جاری کئے گئے ایک سرکاری بیان میں بھی ملا عبدالغنی برادر کے مذکورہ دورے کو وزیراعظم عمران خان کے سرکاری دورہ کابل کے نتیجے میں افغان حکومت کی مشاورت سے ہونے والا دورہ قرار دیا گیا تھا۔ اِس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ استاد کریم خلیلی کا تازہ دورۂ اسلام آباد بھی ایک وسیع ہم آہنگی کا حصہ ہے۔ پاکستان قبل ازیں بھی اِس بات پر زور دیتا رہا ہے اور اب استاد کریم خلیلی سے مذاکرات میں بھی پاکستانی قیادت کا موقف یہ رہا ہے کہ مل جل کر امن کی فضا میں آگے بڑھنے کی کاوشیں کی جائیں۔ افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی کے رہنما کے اسلام آباد کے دورے سے بعض حلقوں میں یہ امید بھی پیدا ہوئی ہے کہ ہزارہ برادری اور طالبان کو قریب لانے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔ بین الافغان مذاکرات افغانستان میں قیام امن کا نادر تاریخی موقع ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے تاکہ اس باب میں اگلی منزلوں کی طرف بڑھنا ممکن ہو۔