شعر پر اعتراض ہوا، تو کلاشنکوف لے کر پاک ٹی ہاؤس پہنچ گیا

January 24, 2021

انٹرویو:رؤف ظفر، لاہور

عکّاسی:عرفان نجمی

میاں والی کی سنگلاخ زمین سے تعلق رکھنے والے 58سالہ منصور آفاق ادب، شعر و شاعری، ڈراما نگاری، کالم نویسی اور تنقید نگاری کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو80 سے زاید ڈرامے، سات ٹی وی سیریلز، 10سے زاید کتب، متعدّد بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکیومینٹریز اور سیکڑوں کالم دے چُکے ہیں اور یہ سفر تاحال جاری ہے۔گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُن کی نجی، ادبی اور عوامی زندگی کے کئی نئے پہلو سامنے آئے۔اُنہوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کے حوالے سے کئی انکشافات بھی کیے، جو یقیناً قارئین کے لیے دِل چسپی کا باعث ہوں گے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:میاں والی جیسی سنگلاخ، پتھریلی اور بنجر سرزمین میں شعر و شاعری کا چمن کیسے آباد ہوا؟

ج:دیکھیں جی، علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال فطرت کے مقاصد کی نگہہ بانی کے لیے بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی کو موزوں قرار دیتے ہیں اور میاں والی کے لوگ صرف بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی ہی نہیں، مردِ میدانی اور مردِ دریائی بھی ہیں۔میاں والی دریائے سندھ کے کناروں پر موجود ریگزاروں، کوہساروں اور سرسبز و شاداب میدانوں میں آباد ہے۔ مشہور مفکّر، سینٹ ہیو کسی شخصیت کی پرکھ کے لیے جغرافیائی ماحول اور نسلی کردار کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور مَیں جب میاں والی سے متعلق سوچتا ہوں، تو بے شمار بڑے نام ذہن میں آتے ہیں۔

اب تو خیر اُن میں سرِفہرست عمران خان ہی ہیں۔ مَیں 17 جنوری 1962 کو پیدا ہوا۔ والد صاحب ٹھیکے داری کرتے تھے۔ اگرچہ یہ شہر قبائلی دشمنیوں اور قتل و غارت کا گہوارہ تھا، مگر میری خوش قسمتی کہ مَیں بلوخیل روڈ پر جس گھر میں پیدا ہوا، اُس کا ماحول ادبی، علمی اور مذہبی تھا۔میرے نانا، مولوی غلام یٰسین شہر کے بہت بڑے عالم دین تھے اور والدہ ہائی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ وہ مجھے اپنے والد کی طرح عالمِ دین بنانا چاہتی تھیں، اسی لیے مجھے’’جامعہ شمعِ صدیقیہ‘‘ نامی مدرسے میں درسِ نظامی کے لیے داخل کروا دیا۔

کچھ دن جامعہ اکبریہ میں بھی پڑھا، لیکن اُس ماحول کے ساتھ میری آزاد روی زیادہ دیر تک نہ چل سکی۔ ابتدا میں مزاحمت کی، لیکن میری ایک نہ سُنی گئی، تو وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور پھر آخر کار امّی نے بھی میری ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ چناں چہ، مَیں نے درسِ نظامی کی بجائے میٹرک کا امتحان دیا اور کام یاب ہوگیا۔ کالج گیا، تو اُردو ایڈوانس رکھ لی، جو ڈاکٹر اجمل نیازی پڑھاتے تھے اور مَیں اردو ایڈوانس میں اکیلا طالبِ علم تھا۔اس کا آخری پریڈ ہوا کرتا تھا، جیسے ہی وقت ہوتا، اجمل نیازی صاحب کہتے ’’آئو چلیں۔‘‘ ہمارا کالج شہر سے تقریباً ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، وہاں سے نکلتے اور بازار پہنچ جاتے۔

شاعروں سے ملتے، ہوٹلز پر بیٹھتے۔اکثر اوقات یہ ایک پیریڈ کئی گھنٹوں پرمحیط ہو جاتا۔میرے بڑے بھائی، محمّد اشفاق چغتائی بھی شاعر تھے۔یہ دو مصرعے اُن ہی کی نعتوں کے ہیں’’غلام ہیں، غلام ہیں، رسولؐ کے غلام ہیں‘‘ اور’’ غلامیٔ رسولؐ میں تو موت بھی قبول ہے۔‘‘میرےچچا، محمّد ایوب چغتائی بھی اچھے نثر نگار تھے۔وہ تصوّف کے آدمی تھے۔اُنھوں نے صوفی ازم پر پچاس سے زاید کتب لکھیں۔

س:پہلی غزل یا نظم کب کہی؟

ج: نوجوانی ہی میں شاعری شروع کردی تھی۔اپنے بڑے بھائی سے اصلاح لیا کرتا تھا، بعدازاں سیّد نصیر شاہ سے باقاعدہ اصلاح لینی شروع کی۔ مَیں نے جو پہلی غزل کہی، اُس کی اصلاح اشفاق بھائی نے کی تھی اور پھر وہی غزل مَیں نے ایک مشاعرے میں سُنائی، تو میاں والی کے بزرگ شاعر، انوار ظہوری نے کہا’’ یہ لونڈا اِتنی اچھی غزل کس سے لکھوا کر لے آیا۔‘‘ اُس وقت تو اُن سے کچھ نہیں کہا، مگر غصّے سے کھولتا گھر پہنچا، تو اشفاق بھائی کے سامنے بزرگ شاعر کے خلاف خُوب بھڑاس نکالی۔اُنھوں نے میرا غصّہ ٹھنڈا کرنے کے لیے مشورہ دیا کہ’’ شاعر جب کسی کو گالی دیتے ہیں، تو وہ بھی شعر کی زبان میں ہوتی ہے‘‘ اور پھر مجھے فردوسی کا واقعہ سُنایا کہ محمود غزنوی نے اُسے’’ شاہ نامہ فردوسی‘‘ لکھنے کا کہا اور ساتھ یہ آفر بھی دی کہ ہر شعر کے عوض ایک اشرفی دے گا۔

فردوسی نے کئی ہزار شعر کہہ دیے، مگر محمود نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، جس پر اُسے بہت تکلیف ہوئی۔اُس نے محمود غزنوی کی ایک ہجو لکھی، جس میں کہا’’ کوئوں کے انڈے بازوں کے نیچے رکھ دئیے جائیں، تو کوّ ے ہی پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ مَیں نے یہ بات گرہ سے باندھ لی اور انوار ظہوری کے خلاف ایک ہجو لکھ دی، مگر اشفاق بھائی اُسے درست کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ ہم دونوں میں زبردست جنگ ہوئی اور بالآخر مَیں نے اُن سے زبردستی ہجو درست کروالی، لیکن جو گالیوں بَھرے مصرعے اشفاق بھائی نے اس میں سے نکال دئیے، اُن کا بہت دُکھ ہوا۔

اس ہجو کی چند سطریں مجھے جو ابھی تک یاد ہیں ’’اے عدو، اے کم نظر، اے تنگ دل، اے فتنہ خُو…شرم آتی ہے مجھے، ہوتا ہے جب تو رُو برو…تجھ کو کیوں اُکسا رہی ہے تیری یہ زخمی اَنا…چاند پر جو تھوکتا ہے، خود بھی ہوتا ہے فنا…تو اَنا کا زخم خوردہ ہے، بڑا بیمار ہے…تیری ساری شاعری، ہر دَور میں بے کار ہے۔‘‘

س:کالج کے شب و روز کیسے گزرے؟

ج: 1979ء میں گورنمنٹ کالج، میاں والی میں داخلہ مل گیا۔ اُس وقت تک تحریر اور تقریر میں ذہن کسی قدر پختہ ہو چُکا تھا۔ اگرچہ والدہ کا مجھے مولوی بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا، لیکن سچّی بات ہے کہ اُس وقت خود میری بھی حالت اِک خزاں رسیدہ پتّے کی سی تھی۔ مَیں تب تک اپنے کیریئر کا تعیّن نہ کرسکا تھا۔ ایک منفی اثر یہ بھی ہوا کہ وسیع مطالعے اور غیر مُلکی فلسفیوں کے افکار پڑھ کر ’’دہریہ‘‘ بن گیا۔ دہریہ ان معنوں میں کہ باطنی طور پر کسی بھی مذہب سے مطمئن نہ تھا اور ایک مایوس کن باغیانہ ذہنی کیفیت یا بخار میں مبتلا تھا۔ اُسی زمانے میں سیّد نصیر شاہ صاحب سے بھی ملنے اور اُن کی کتب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

وہ انگریزی، اُردو، عربی، فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ مَیں اُن سے ٹیوشن بھی پڑھا کرتا تھا۔ اِتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود اُن کی سوچ و فکر پر بھی ’’دہریہ پن‘‘ غالب تھا۔ شاید بہت زیادہ یا ضرورت سے زاید مطالعہ بھی سوچ کو بھٹکاتا اور ذہن کو الجھنوں میں ڈال دیتا ہے۔ بہرحال، یہ وہ عالمِ دین تھے، جنہیں اُس زمانے میں مولانا عبدالسّتار خان نیازی ہر مہینے ایک سو روپے بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار مَیں نے اُن سے پوچھا کہ’’ شاہ صاحب اور آپ کے نظریات میں بُعد المشرقین ہے۔ اس کے باوجود آپ اُنہیں پیسے کیوں بھیجتے ہیں؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ اپنے عہد کے ایک بڑے عالم کو پیسے بھیجتا ہوں۔‘‘ میری زندگی کا یہ وہ دَور ہے، جب کسی واضح منزل کے بغیر شک و شبہے کی وادیوں میں برہنہ پا بھٹک رہا تھا۔ بس شعر وشاعری، ہوٹلز پر بحث مباحثے، گپ بازی، چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنا اور سگریٹ کے دھویں میں ہر چیز کو تحلیل کر دینا ہی زندگی تھی۔

مجھ سے میری زندگی کا ملخّص پوچھیں، تو مَیں اسے محض’’ اتفافات کا مجموعہ‘‘ کہوں گا۔ آپ اسے قدرت کا انعام کہیں یا محض ایک موقع کہ اُس زمانے میں جب مَیں راہ گم کردہ مسافر کی طرح دربدر بھٹک رہا تھا، میری ایک حافظِ قرآن، حافظ مظہر قیوم سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی، جو کہ میاں والی سے 30 میل دُور’’ پپلاں‘‘ نامی قصبے کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے۔یہ 1984ء کی بات ہے، اگست کے ایک دہکتے دن کی صبح مَیں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ٹھیک نو بجے اُس شخص سے ملنے پپلاں گیا۔وہ میرے بڑے بھائی کے دوست تھے۔ مولوی صاحب بڑے پیار سے ملے۔ اُن کے حجرے میں چار لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب بڑے دھیمے انداز میں گفتگو کر رہے تھے۔ بات سمجھنے کے لیے مجھے اپنی سماعت مجتمع کر کے پوری توجّہ اُن کی آواز پر مرکوز رکھنی پڑ رہی تھی۔ہمیں وہاں بیٹھے تقریباً آدھا گھنٹہ گزرا تھا کہ اُنہوں نے کہا” جمعے کی نماز کا وقت ہونے والا ہے، اِس لیے اُٹھا جائے“ اور سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔

مَیں نے سوچا کہ ہمیں اُٹھانے کے لیے مولوی صاحب کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ابھی ساڑھے نو ہوئے ہوں گے اور جمعے کی جماعت ایک ڈیڑھ بجے کھڑی ہوتی ہے۔ یہی سوچتے ہوئے حجرۂ درویش سے باہر آیا، تو احساس ہوا کہ سورج کو جہاں ہونا چاہیے تھا، وہاں نہیں ہے۔ گھڑی پر نظر ڈالی، تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ مَیں نے بھائی سے وقت پوچھا، تو اُنہوں نے بھی میری گھڑی کی ایک لائن میں کھڑی سوئیوں کی تصدیق کی۔مَیں پریشان ہو گیا کہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹوں کا فرق لگ رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ خانۂ ذہن سے یہ وقت کون چُرا کر لے گیا۔ ہفتہ بھر وقت کی اسی گم شدگی کے بارے میں سوچتا رہا۔پھر ایک دن گھر سے نکلا، تو میری موٹر سائیکل کی رفتار اُس وقت دھیمی ہوئی، جب مَیں پپلاں پہنچ چُکا تھا۔ موٹر سائیکل اُسی مسجد کی طرف مُڑ گئی۔

مَیں، جو خدا کو نہیں مانتا تھا، الحاد اور تشکیک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا،کئی سال سے نماز نہیں پڑھی تھی، مسجد کے دروازے کے پاس جا کر رک گیا۔ شام کی نماز ہو چُکی تھی اور نمازی باہر نکل رہے تھے۔ صحن میں صرف ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور وہ وہی مولوی صاحب تھے۔ مَیں مسجد کے اندر داخل ہوا اور اُنہیں نماز پڑھتے دیکھنے لگا۔اچانک مجھے ایک دوست کی آواز سُنائی دی”شُکر ہے، اللہ تعالی تمہیں مسجد میں لے آیا۔ رُک کیوں گئے ہو، چلو وضو کرو اور نماز پڑھو۔“مَیں نے اُس سے کہا”مَیں نماز پڑھنے نہیں آیا، مجھے مولوی صاحب سے کچھ کام ہے۔“اُس نے کہا” دیکھو! اگر آج بھی نماز نہ پڑھی، تو مَیں ساری زندگی تم سے کلام نہیں کروں گا۔“ مَیں نے اپنے دوست کے لیے نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ وضو کیا اور مسجد کے صحن میں آگیا۔ پانچ، چھے قطاروں میں پنکھے لگے ہوئے تھے اور اُن کے نیچے صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ مَیں آخری صف پر ایک پنکھے کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میرے بالکل سامنے، پانچ صف آگے مولوی صاحب نماز پڑھ رہے تھے۔

میں نے ابھی نماز کی نیّت باندھی ہی تھی کہ ایک طالبِ علم نے مولوی صاحب کے اوپر چلنے والا پنکھا چھوڑ کر باقی تمام پنکھے بند کردئیے۔ بلا کی گرمی تھی۔مَیں نے حیرت سے مولوی صاحب کو دیکھا، جنہوں نے کھڑے کھڑے سلام پھیرا اور آ کر میرے اوپر چلنے والے پنکھے کا بٹن آن کردیا، پھر واپس آگئے اور نماز کی نیّت باندھ لی۔ مَیں اندر سے کانپ کر رہ گیا۔ وہ مجھ سے اِتنی دُور تھے کہ اُنہیں میرے سَر پر چلنے والے پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہو سکتا تھا، پھر میری طرف اُن کی پُشت تھی اور اگر احساس ہو بھی گیا تھا، تو اُس شخص سے زیادہ عظیم کون ہو سکتا ہے، جس نے صرف ایک اجنبی کو گرمی سے بچانے کے لیے اپنی نماز توڑ دی۔ مَیں نے نماز پڑھی، سچ مُچ کی نماز اور مولوی صاحب سے کوئی بات کیے بغیر مسجد سے باہر آگیا۔

باہر دوست میرا انتظار کر رہا تھا۔ اُس نے پو چھا’’ مولوی صاحب سے ملے؟‘‘ تو مَیں نے کہا ”ہاں میری ملاقات ہو گئی ہے۔“ دوست ہنس پڑا اور بولا”کسی وقت اس شخص سے ضرور ملنا۔ حیرت انگیز آدمی ہے۔ مَیں نے اس سے ملنے والوں کی تقدیریں بدلتی دیکھی ہیں۔“بہرحال، یہ واقعہ میرے دماغ میں اٹک کر رہ گیا۔ مَیں نے بہت سے ہم خیال دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر گھنٹوں گفتگو کی۔بہت سی تاویلیں بھی تلاش کیں، مگر سانس میں پھانس بن کر اٹک جانے والا مولوی دماغ سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ تقریباً دو ہفتے بعد مَیں نے سوچا کہ مولوی صاحب کی تقریر سُنی جائے تاکہ اُن کے علم کا اندازہ ہو۔ مَیں نے ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا تھا، ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی تھی اور مطالعے کا شوق وَرثے میں ملا تھا، اِس لیے خود کو اسلام پر اتھارٹی سمجھتا تھا اور شاید یہی زعم مجھے الحاد کی طرف لے گیا تھا۔خیر، نمازِ جمعہ سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ گیا۔

وہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی تقریر شروع کر چُکے تھے۔ ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کے بالکل سامنے دوسری صف میں ایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے، تو مَیں صفیں چیرتا اس جگہ تک پہنچ گیا۔ مولوی صاحب سے میری نظریں ملیں اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔جب ہوش آیا، تو مَیں سلام پھیر رہا تھا اور رو رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا گریبان پسینے سے نہیں، آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔نظریں ملنے سے سلام پھیرنے تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ تھا۔ مَیں تو اُن ساڑھے تین گھنٹوں کی تلاش میں تھا، جو کچھ دن پہلے اسی شخص کی محفل میں کھو گئے تھے، اُلٹا ڈیڑھ گھنٹہ اور گنوا بیٹھا۔

مگر اس ڈیڑھ گھنٹے کی گم شدگی نے ساری گم شدہ گُتھیاں سلجھا دیں اور میں یہ سوچ کر تشکیک کی وحشت سے باہر نکل آیا کہ مَیں اُس خدا کے وجود کا کیسے انکار کر سکتا ہوں، جس کے ایک معمولی سے ماننے والے مولوی کی ایک نگاہ برداشت نہیں کر سکا۔ شام کے وقت پھر اُسی مسجد میں گیا اور خود کو مولوی صاحب کے حلقۂ ارادت میں دے دیا۔اُنہوں نے دو باتیں کیں۔’’ اپنا حلقۂ احباب تبدیل کر لو اور وقت ضائع کرنا گناہِ کبیرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ قضا نمازیں تو لوٹائی جا سکتی ہیں، مگر قضا ساعتیں نہیں لَوٹ سکتیں۔‘‘ پہلے مَیں میاں والی کے ہوٹلز میں لادینیت سے متعلق بحث مباحثے کیا کرتا تھا،پھر نہ صرف ایسی سرگرمیاں ختم ہوگئیں، بلکہ چند ہی ہفتوں میں میری شاعری کا اوّلین نعتیہ مجموعہ’’آفاق نُما‘‘ منظرِ عام پر آگیا۔ تب حیرت زدہ لوگوں کو یقین آ گیا کہ میری زندگی کے مادیت پرستی کے دَور پر اس نعتیہ مجموعے نے خاتمے کی مُہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔

اہلیہ اور بیٹوں کے ساتھ، خوش گوار موڈ میں

س:میاں والی چھوڑ کر لاہور کیوں آبسے؟

ج:مَیں نے محسوس کیا کہ ان واقعات کے بعد میری زندگی کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔چند برس میاں والی میں اس طرح گزرے کہ مَیں نے لاتعداد مشاعروں اور ادبی و ثقافتی تقاریب کا اہتمام کیا۔ میری پہچان اب سکہ بند شاعر کی ہوگئی تھی۔پھر اس گہما گہمی میں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ مَیں اپنے ایک دوست تنویر حسین ملک کے ساتھ مل کر ایک ہفتہ وار اخبار نکالا کرتا تھا، جس کی پرنٹنگ سرگودھا سے ہوتی تھی۔ ایک روز ہم اخبار پرنٹ کروا کے ویگن میں واپس آ رہے تھے کہ اڈّے پر ہمارے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ وہ میرے بھائیوں کی طرح تھا (اور اب بھی ہے)، مَیں نے غصّے سے کہا’’مَیں اب میاں والی میں نہیں رہوں گا‘‘۔ اُس نے کہا ’’دیکھتا ہوں، تم اپنی بات کے کتنے پکّے ہو‘‘۔وہ دن اور آج کا دن، مَیں نے میاں والی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

کسی غمی خوشی پر تو آنا جانا رہتا ہے، لیکن مستقل رہائش ترک کردی۔ لاہور میں میرے بڑے بھائی انجینئرنگ یونی ورسٹی میں اچھے عُہدے پر تعیّنات تھے۔ مَیں بھی وہاں منتقل ہوگیا۔ وہاں ڈاکٹر اجمل نیازی بھی مقیم تھے، جو گورنمنٹ کالج میاں والی میں میرے استاد رہ چُکے تھے۔ مَیں نے جب اُنہیں بتایا کہ’’ میاں والی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا ہے،‘‘ تو وہ تشویش میں پڑ گئے اور کہا ’’یہ کیا غلطی کی ہے تم نے۔وہاں تمہاری اچھی بھلی عزّت تھی۔ میاں والی چھوٹا شہر ہے۔ اس کے مقابلے میں لاہور ایک سمندر ہے۔ یہاں بڑے بڑے مگرمچھ رہتے ہیں۔ یہاں تمہاری دال نہیں گلے گی۔ بہتر ہے، واپس چلے جائو‘‘۔ مَیں نے کہا’’ کشتیاں جلا کر آیا ہوں۔ اب واپس نہیں جائوں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’تمہاری مرضی! ویسے پچھتائو گے، لاہور تمہیں کھا جائے گا‘‘۔

س:پھر لاہور میں کسی مگر مچھ سے پالا پڑا؟

ج:بالکل پڑا، لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ میرا پاک ٹی ہائوس آنا جانا رہتا تھا۔ ایک بار ایک میز پر انتظار حسین، زاہد ڈار، سہیل احمد خان اور چند دوسرے شاعر بیٹھے تھے۔ مَیں نے اپنی ایک غزل سُنائی، جس کے دو شعر اب تک یاد ہیں؎’’ورقہ ورقہ خوابیں لکھنا…اپنا کام کتابیں لکھنا…اس کا سال میں اِک خط لکھنا… اپنا روز جوابیں لکھنا۔‘‘وہ غزل سُن کر میرے پیچھے پڑ گئے کہ ’’ خواب کو خوابیں لکھ کر اُردو کا ستیاناس کر دیا۔ تم جیسے نوجوان شاعر ہی زبان گندی کرتے ہیں۔‘‘ اور بھی بہت کچھ سننا پڑا۔

مَیں نے اُنھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی لفظ دلّی میں مذکر ہے، تو لکھنؤ میں مونث ہو جاتا ہے اور بھی دلائل دیے، لیکن وہ میری بے عزّتی پر تُلے ہوئے تھے۔ مَیں اٹھ کر چلا آیا، لیکن مجھے یقین تھا کہ میرے دلائل وزنی ہیں۔ دوسرے دن ایک دوست میجر رفیع اللہ سے ملنے گیا اور دن بھر گپ شپ ہوئی۔ شام کو اُنہیں کسی شادی کی تقریب میں جانا تھا۔ مَیں نے کہا’’ مجھے راستے میں پاک ٹی ہائوس اُتار دیں اور اپنے ایک گارڈ سے کہیں کہ مجھے اپنی کلاشنکوف بھی دے دے،واپسی پر لے لیجیے گا ۔

مَیں ذرا ادیبوں پر رُعب ڈالنا چاہتا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے مجھے کلاشنکوف دے دی اور سختی سے احتیاط برتنے کو کہا۔ مَیں ٹی ہائوس کے اندر داخل ہوا اور اُسی میز پر کلاشنکوف رکھ دی، جس پر مظفّر علی سیّد، انتظار حسین، زاہد ڈار اور ڈاکٹر سہیل احمد خان بیٹھے تھے۔

مَیں نے کہا’’تو جی، کل بحث جہاں ختم ہوئی تھی، آج وہیں سے شروع کرتے ہیں۔‘‘ مَیں نے دیکھا کہ وہ کبھی مجھے دیکھتے ہیں اور کبھی کلاشکوف کو۔ میاں والی کے لوگوں کے بارے میں پہلے ہی کوئی خوش گوار تاثر موجود نہیں تھا۔مظفّر علی سیّد ذہین آدمی تھے، اُنہوں نے فوراً کہا’’ وہ مَیں نے رات غور کیا تو میرا خیال ہے، تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔کئی لفظ ایسے ہیں، جو مذکر بھی ہیں اور مونث بھی۔پھر یہ کوئی پتھر پر لکیر بھی نہیں۔کوئی لفظ جو کسی علاقے میں مذکر ہے، کسی اور علاقے میں مونث بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے تمہارا استدلال ٹھیک ہے۔‘‘

لندن میں امجد اسلام امجد اور دیگر کے ساتھ گروپ فوٹو

س:شاعر تھے، تو پھر ڈراما نگاری کی طرف کیسے آنکلے؟

ج: ایک ماہ تک لاہور میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہ تھا۔ مجھے ڈاکٹر اجمل نیازی کی بات سچّی لگنے لگی تھی۔ایک روز داتا دربار جا پہنچا اور دعا کی کہ’’ میرے لیے لاہور کے دروازے کھل جائیں۔‘‘ اور پھر لاہور کے دروازے کُھلتے چلے گئے۔ ایک شام پی ٹی وی کے اسکرپٹ ایڈیٹر، علی اکبر عبّاس سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے اسلام آباد آنے کو کہا، تو مَیں نے کہا ’’صرف اس شرط پر کہ مجھے ری سیپشن پر انتظار نہ کرنا پڑے۔‘‘ چناں چہ وہ خود لینے آئے۔

جب واپس آ رہا تھا، تو برآمدے میں محمّد عظیم پروڈیوسر سے ملاقات ہو گئی۔ سلام دُعا کے بعد کہنے لگے ’’کسی ڈرامے کا آئیڈیا تو دیں۔‘‘ میں نے کہا’’ آئیڈیا تو ہے، مگر آپ اس پر ڈراما بنائیں گے نہیں‘‘۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گئے۔ یقین کریں، میرے ذہن میں کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔

اسی دَوران باہر سے ایک بچّے کی آواز آئی اور میرے ذہن میں ایک ایسے بچّے کا تصوّر آیا، جسے لوگوں کے سَر نظر نہیں آتے تھے۔وہیں بیٹھے بیٹھے کہانی تراشی کہ’’ میڈم پروین کسی شخص میں جب کوئی برائی دیکھتیں، تو اُن کے منہ بے ساختہ نکلتا ’’اِس کا تو سَر ہی نہیں۔‘‘یعنی یہ اُن کا تکیہ کلام تھا۔اُن کا دس سالہ بیٹا پوچھتا کہ ’’امّی! بے سَر لوگ کیسے ہوتے ہیں؟ وہ بولتے کیسے ہیں؟‘‘ ماں نے ایک دن تنگ آکر یونہی کہہ دیا’’ اُن کے نرخرے سے آواز نکلتی ہے۔‘‘یہ بات بچّے کے دماغ میں راسخ ہو گئی کہ بُرے لوگوں کے سَر نہیں ہوتے اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ اسکول میں جب اُس کے کلاس ٹیچر نے بچّوں کو زبردستی ٹیسٹ پیپر بیچنے کی کوشش کی تو اُس کا سَر غائب ہوگیا۔وہ چیخ مار کر بھاگا اور گھر جا کر ماں سے کہنے لگا کہ’’ مجھے اپنے استاد کا سَر دِکھائی نہیں دیتا۔‘‘ماں نے اُسے کار میں بٹھایا اور آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔

ڈاکٹر چُھٹی کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر دے رہا تھا، جیسے ہی بچّے کو اِس بات کا علم ہوا، ڈاکٹر کا سَر غائب ہوگیا۔واپسی پر ایک سارجنٹ کا سَر بھی غائب ہوگیا۔بچّے کا انکل وکیل تھا، اُس کا بھی سَر غائب ہوگیا۔ اُسے کئی ماہرینِ نفسیات کے پاس لے جایا گیا، مگر لوگوں کے سَر غائب ہوتے رہے۔اس کے بیورو کریٹ ماموں کا سَر غائب ہوا۔ ہم سائے میں رہنے والے ایک سیاسی لیڈر کا سَر غائب ہوا۔ ابو کے ایک معروف صحافی دوست کا سَر غائب ہوا، حتیٰ کہ ایک دن اُس کے ابّو کا بھی سَر غائب ہوگیا۔بچّے کے امتحانات سر پر آگئے، مگر وہ دو ماہ سے اسکول گیا ہی نہیں تھا۔ ماں چاہتی تھی کہ اُس کا سال ضائع نہ ہو، مگر بچّہ اسکول جانے پر راضی نہیں تھا کہ وہاں اُسے اپنے استاد کا سَر دِکھائی نہیں دیتا۔

؎ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

ماں نے اُس کے ایک کلاس فیلو دوست سے بات کی، جس نے اُسے امتحان دینے پر آمادہ کرلیا۔ کمرۂ امتحان میں جب اُس نے اپنے دوست سے سرگوشی کی کہ’’ مجھے تو ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں آتا‘‘، تو دوست نے ایک چھوٹی سی پرچی اُس کی طرف بڑھائی، جس پر ایک سوال کا جواب لکھا ہوا تھا۔اُس نے جیسے ہی اُسے جوابی کاپی پر نقل کرنا شروع کیا، تو اُسے اپنے استاد کا سَر دکھائی دینے لگا۔نرخرے سے آنے والی آواز بھی ختم ہوگئی۔‘‘یہ کہانی سُن کر محمّد عظیم پھڑک اٹھے اور کہا’’ فوراً اسکرپٹ لکھ کر لائو۔‘‘مَیں نے باہر نکل کر سوچا کہ اسکرپٹ رائٹنگ تو ایک ٹیکنیکل کام ہے، کسی سے سیکھنا چاہیے۔

وہاں سے سیدھا اطہر ناسک(مرحوم) کے پاس پہنچا۔وہ فلموں کا اسکرین پلے لکھا کرتے تھے۔اُن سے تین گھنٹے کی تفصیلی گفتگو کے بعد مَیں نے اسکرپٹ لکھا اور محمّد عظیم کے پاس لے گیا، جسے اُنہوں نے پسند کیا، مگر پی ٹی وی نے مسترد کر دیا۔جی ایم لاہور، رفیق وڑائچ تھے، اُنہوں نے اس شرط پر منظوری دی کہ’’ کوئی اعتراض ہوا، تو محمّد عظیم خود ذمّے دار ہوگا۔‘‘ جس رات یہ ڈراما آن ائیر ہوا، اُس سے اگلی صبح میں پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوا، تو کہا گیا کہ’’ تمہیں جی ایم بُلا رہے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا’’ مَیں نے تمہارے ایئر ٹکٹ کے لیے کہہ دیا ہے۔

تمھیں اسلام آباد جانا ہے۔ محمّد نثار حسین نے بلایا ہے۔‘‘مَیں اُن سے ملا، تو کہنے لگے ’’آج سے تمہارے سب کام بند۔ تم نے صرف ڈرامے لکھنے ہیں‘‘۔ اُس دَور کے لوگ جانتے ہیں کہ محمد نثار حسین ٹی وی کی دنیا کا کتنا بڑا نام تھا۔ اُن کی طرف سے عزّت افزائی آج بھی اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہوں۔ پھر میرے اندر کا ڈراما نگار جاگ اٹھا اور مَیں اسکرپٹ لکھنے کی مشین بن گیا۔ اندازہ لگائیں، 1991ء سے 1994ء اور پھر 2005ء تک مَیں نے مختلف وقفوں سے 85اردو، پنجابی اور سرائیکی ڈرامے اور سات سیریل لکھے۔

س:سُنا ہے، کسی زمانے میں میاں والی کی سیاست میں بھی فعال رہے ہیں؟

ج: مَیں میٹرک اور بی اے میں انقلابی ذہن کا مالک تو تھا ہی، ہم نے 1985ء میں میاں والی میں’’ عوامی محاذ‘‘ نامی تنظیم بنائی، جس کا مقصد سیاست پر نواب آف کالا باغ جیسے وڈیروں اور جاگیرداروں کا تسلّط ختم کرنا تھا۔ یہ غریبوں کی جماعت تھی اور ڈاکٹر شیر افگن اس کے لیڈر تھے،جو اُن دنوں عام سے ڈاکٹر ہوا کرتے تھے۔وڈیروں کے اثر و رسوخ کا عالم یہ تھا کہ ہماری جماعت کے پلیٹ فارم سے کوئی بڑا سیاسی ورکر الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہ تھا، لیکن ہم نے اور خاص طور پر میرے دوست، معروف موسیقار اور شاعر، افضل عاجز نے انقلابی نظموں سے پورے شہر میں آگ لگا رکھی تھی۔

1985ء کے الیکشن میں میاں والی میں ہم تقریباً ساری نشستیں جیت گئے اور ڈاکٹر شیر افگن صوبائی اور قومی دونوں نشستوں سے کام یاب ہوئے۔ مَیں نے انقلاب کی بہت سی کہانیاں پڑھی تھیں، لیکن یہ عوامی انقلاب تو خود ہمارے ہاتھوں برپا ہوا اور ہم نے میاں والی کی سیاست کو ایک نئے باب سے روشناس کروایا، جس کے مستقبل میں گہرے اثرات مرتّب ہوئے۔ پھر بہت سا پانی پُلوں کے نیچے سے گزر گیا۔

یہ 1993 ء کی بات ہے۔مَیں نصرت ٹھاکر کے ساتھ اپنے ڈراما سیریل ’’دنیا‘‘ پر کام کر رہا تھا۔ ایک روز ایسا ہوا کہ وفاقی وزیرِ قانون، ڈاکٹر شیر افگن لاہور میں پی ٹی وی کے دفتر پہنچ گئے۔ اُنہیں پتا تھا کہ مَیں پی ٹی وی کے لیے لکھتا ہوں۔ بولے’’ منصور آفاق کو ڈھونڈ کر لائیں۔‘‘ سب پریشان ہو گئے۔ مجھے اُن کے سامنے پیش کیا گیا، تو کہنے لگے’’ یہاں کیا کر رہے ہو؟ میرے ساتھ اسلام آباد چلو، اب تم وہیں رہو گے‘‘۔

س:اقتدار کی راہ داریوں میں گزرے یہ دن تو بہت اچھے ہوں گے؟

ج:آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ زندگی کے وہ تین سال، جو مَیں نے اسلام آباد میں گزارے، بہت خوف ناک تھے۔ اِتنا بھٹک گیا تھا کہ مَیں نے شاعری بھی چھوڑ دی تھی، میرا سب کچھ چُھوٹ گیا۔ پھر 97ء میں شادی ہوئی، تو زندگی صحیح سمت میں چل پڑی۔ میری شادی میاں والی ہی میں رشتے داروں میں ہوئی۔ 1997ء میں، مَیں نے ایک بین الاقوامی ادارے، یو این ڈی پی کی طرف سے کشمیر پر تین ڈاکیومینٹریز بنائیں، جن کی عالمی سطح پر بھی پذیرائی ہوئی۔

س:لندن یاترا کی کیا کہانی ہے۔اب تو آپ برطانوی شہری بھی ہیں؟

ج:میری تہہ در تہہ زندگی کے ابواب ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہیں کہ مَیں خود بعض اوقات کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔ (باقی صفحہ 18پر)

ایک شاعر کی حیثیت سے اکثر لندن اور دیگر یورپی ممالک آنا جانا رہتا تھا، لیکن 1999ء کا لندن وزٹ میرے پائوں کی زنجیر بن گیا۔ لمبی داستان ہے، مختصر کر دیتا ہوں۔ مَیں اور ڈاکٹر شیر افگن کا بیٹا، بیرم خان ملینیم تقریبات میں شرکت کے لیے 30دسمبر کو ہیتھرو ایئر پورٹ اُترے۔5 جنوری کو پتا چلا کہ میرے خلاف سولہ ایم پی او کے تحت مقدمہ درج ہوگیا ہے۔ڈاکٹر شیر افگن نے محترمہ بے نظیر بھٹّو سے ملنے کا مشورہ دیا۔ بیرم خان اور مَیں اُن کے فلیٹ پر گئے۔

دوپہر کا کھانا محترمہ کے ساتھ کھایا۔ سالن اُنہوں نے خود بنایا تھا اور روٹیاں اُن کی ملازمہ نے۔ محترمہ نے پیر مظہر الحق کو بُلا کر ہمیں اُن کے حوالے کردیا۔ ہم محترمہ کے سامنے اُن کے ساتھ چلے آئے، مگر باہر نکل کر اُنہیں کہا کہ یہاں ہمارے بہت دوست ہیں ،ہمیں رہائش کا کوئی مسئلہ نہیں۔چار ماہ بعد بیرم خان واپس پاکستان گئے، تو اسلام آباد میں اُن کا کار ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا۔مجھے برطانوی حکّام نے کہا کہ بیرم خان کی موت اتفاقی نہیں۔بہتر یہی ہے کہ تم ابھی واپس نہ جائو۔

مجھے انڈیفینیٹ اسٹے دے دیا گیا۔اب میں غیر معیّنہ مدّت تک نہ صرف قیام کر سکتا تھا، بلکہ پاکستان آ جا سکتا تھا اور اپنی فیملی بھی بلوا سکتا تھا۔ یوں برطانیہ میں ایک غلط فہمی کی بنیاد پر برطانوی شہریت کی زنجیر آج تک پائوں میں لیے پِھرتا ہوں۔ اب میرا قیام برمنگھم میں ہے، جہاں دو بیٹے، عادل اور ساحل منصور یونی ورسٹی میں پڑھتے ہیں۔فیملی وہاں رہتی ہے، مگر مَیں پاکستان میں۔

س:لوگ تو برطانوی شہریت کا خواب دیکھتے ہیں اور آپ اُسے زنجیر کہتے ہیں؟

ج:ایک مردِ کوہستانی کو لندن کی پُرتکّلف اور مصنوعی فضا میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں برطانیہ میں ایسے ہی رہتا ہوں، جیسے مچھلی پانی سے باہر۔

س:اب تک کتنی کتب منظرِ عام پر آچُکی ہیں؟

ج:مَیری پوری زندگی میں، چاہے مَیں سمندر پار رہا، میاں والی کی سنگلاخ زمینوں پر وقت گزارا یا لاہور اور اسلام آباد کی فضائوں میں سانس لیا، میرا شاعر میرے ساتھ ساتھ رہا۔ مَیں آورد کا قائل نہیں، جب جی چاہتا ہے، شعر کہہ لیتا ہوں۔ میری 10سے زائد کتب منظرِ عام پر آ چُکی ہیں۔

پہلا مجموعہ (نعتیہ کلام) 1985ء میں شائع ہوا۔ پھر مختلف وقفوں سے چہرہ نُما(خاکے)، میں، وہ اور عطاء الحق قاسمی (1994ء)، گل پاشی(1996ء)، نیند کی نوٹ بُک (2005ء)، عہد نامہ (2006ء)، عارف نامہ (2008ء)، تکون کی مجلس (2011ء)، الہاماتِ باہو (2012ء)، دیوانِ منصور آفاق 2014ء اور’’ خان آف میاں والی‘‘ (2019ء) میںقارئین تک پہنچے۔ مَیں روحانی طور پر حضرت سلطان باہوؒ سے متاثر ہوں اور مَیں نے اُن کے فارسی کلام کا اُردو میں ترجمہ کیا، جو چار حصّوں پر مشتمل ہے۔

س:آج کل کس ادبی تخلیق پر کام ہو رہا ہے؟

ج:مَیں ایک ناول’’ مراقبہ‘‘ 4سال سے لکھ رہا ہوں۔یہ میری باطنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔؎’’منصور کوئی ذات کا تابوت کھول دے…مَیں مر رہا ہوں اپنے ہی اندر پڑے پڑے۔‘‘ایک تیار مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے، جس میں پندرہ سو غزلیں اور 10ہزار اشعار شامل ہوں گے۔

میرے تخلیقی کام پر کئی یونی ورسٹیز میں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں، جب کہ جی سی یونی ورسٹی میں مجھ پر پی ایچ ڈی کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ برطانیہ میں 20سالہ قیام کے دَوران ایک ڈیجیٹل چینل پر کام کیا اور ایک اُردو اخبار بھی نکالا، لیکن نائن الیون کے بعد مقامی حکّام نے پالیسیز سے اختلاف کی وجہ سے اُسے بند کر دیا۔

س:کالم نویسی کا آغاز کب ہوا؟

ج:ویسے تو مَیں نے 1990ء میں 300روپے فی کالم کے حساب سے نوائے وقت میں لکھنا شروع کیا تھا۔ پھر اس ادارے کی دیگر مطبوعات کے لیے بھی لکھا، جس کا مجموعی معاوضہ 1200روپے ماہانہ ملتا تھا، لیکن حقیقی معنوں میں کالم نگاری کا آغاز 2002ء میں روزنامہ جنگ، لندن سے ایک ادبی کالم سے ہوا، جو جلد ہی وہاں کا مقبول ترین کالم بن گیا۔ اس کے بعد جنگ، لاہور میں لکھنے کے لیے کہا گیا، جو اب تک جاری ہے۔

س: کہا جاتا ہے کہ آپ نے روایتی غزل سے بغاوت کی ہے؟

ج:یہ موضوع بہت طویل اور خشک ہے۔ قارئین کو بور نہیں کرنا چاہتا۔ قصّہ مختصر یہ ہے کہ 200سال پہلے غالب اور میر تقی میر کی شاعری عروج پر تھی۔ اُن کی شاعری میں اُن کا زمانہ بولتا تھا۔ اس کے بعد 20ویں صدی آ گئی۔ اگر گزشتہ 10ہزار سالوں کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے، تو پھر بھی یہ صدی تیز رفتار لگتی ہے۔ اس برق رفتار سفر میں اُردو شاعری ہی نہیں، اردو زبان بھی پیچھے رہ گئی اور جدید تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے سکی۔ کئی الفاظ اور تصوّرات متروک ہو گئے۔

ہماری نئی نسل اور اُردو شاعری میں فاصلے پیدا ہو گئے ہیں۔ اِس وقت کوئی چیز ایسی نہیں، جو اُردو غزل میں دِکھائی دے۔ہم جس گھر میں رہتے ہیں، اُس کی کوئی شئے اردو شاعری میں موجود نہیں ۔ہم گھر سے باہر جہاں جہاں سے گزرتے ہیں، اردو شاعری اُس سڑک، گلی، بازار، پارک سے آشنا ہی نہیں۔

ہم جس دفتر میں کام کرتے ہیں، وہاں کی کسی چیز سے اردو شاعری کا کوئی ربط نہیں۔اُردو شاعری آج بھی ’’نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش ‘‘سے شروع ہوتی ہے اور ’’سو، اس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں ‘‘ پر ختم ہو جاتی ہے۔اور پڑھنے والے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم جس صدی میں جی رہے ہیں، وہ کہاں ہے؟یہی وجہ ہے کہ آج اردو شاعری کا مجموعہ 500سے بھی کم تعداد میں چَھپتا ہے۔ اگر آپ غور کریں، تو آج کی غزل میں آپ کو اپنے اردگرد کے ماحول کی کوئی عکّاسی نظر نہیں آئے گی۔

یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض ایسے نوجوان شاعر مقبول ہو رہے ہیں، جو عہدِ حاضر کی بات کرتے ہیں۔ مَیں شاعری کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا، لیکن مَیں اس عہد میں علّامہ اقبال جیسے کسی بڑے شاعر کا منتظر ہوں، جو ہمارے درد، مسائل، احساسات اپنی تحریروں میں سمو سکے۔مَیں سمجھتا ہوں، جب تک روایت اور جدیدیت سے جُڑا کوئی بڑا شاعر سامنے نہیں آتا، جس کی ہم جیسے کھاد بن سکیں، اردو شاعری بنجر ہی رہے گی۔

س:کچھ بھی ہو، غزل کی اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا؟

ج:انکار تو مَیں بھی نہیں کر رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ جو کچھ کہیں وہ روز مرّہ کی زبان میں ہو اور عوام کو سمجھ آ سکے۔ شعر کا اپنا علیٰحدہ لُطف ہوتا ہے۔ بشرطیکہ یہ دل میں اُتر جائے۔ آپ دیہات میں چلے جائیں، کسی کو بھی ماہیا یا ہیر سنانے کا کہیں، تو وہ ضرور گنگنا دے گا، لیکن اگر اسے کہیں کہ ن- م راشد کا کوئی شعر سُنائے، تو اُس کے لیے مشکل ہو گا۔

س:ادب اور ادیبوں کے لیے بہت سے سرکاری ادارے ہیں، اُن کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟

ج:مطمئن نہیں ہوں۔ مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ مختصراً یہ کہوں گا کہ اِس وقت متعلقہ سرکاری وزارت میں جو وزیر کرتا دھرتا ہیں، اُن کا ادب اور فنونِ لطیفہ سے دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں۔

س:عمران خان نے’’ تبدیلی‘‘ کی جس مہم کا آغاز کیا تھا، آپ نہ صرف اس کے عینی شاہد ہیں، بلکہ قلمی محاذ پر اُن کا بھرپور ساتھ بھی دیا۔ اُن کی ڈھائی سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ج:اِس سوال کا جواب بہت تفصیل طلب ہے، قصّہ مختصر، 20سال قبل مجھے عمران خان کی شکل میں پاکستان کا ایک نجات دہندہ نظر آیا تھا، مَیں نے قلمی محاذ پر اُن کا ہر طرح ساتھ دیا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نہ جانے کیوں وہ کچھ نہیں کر سکے۔لگتا ہے’’نادیدہ قوتیں‘‘اُن کی راہ میں حائل ہیں۔ اگر مَیں عمران خان کی جگہ ہوتا، تو حکومت ہی نہ بناتا، بلکہ واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوبارہ الیکشن کا راستہ اختیار کرتا۔

اب اُن پر اتحادیوں کی تلوار، بلیک میلنگ کی صُورت لٹکتی رہتی ہے۔ مَیں وقتی طور پر مایوس ضرور ہوں، لیکن نااُمید بالکل نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے لیے ایک نئی صبح ضرور طلوع ہو گی۔

س۔ کچھ اشعار سنا دیجیے؟

ج ۔ جو ابھی یاد آ رہے ہیں، سُنا دیتا ہوں۔؎موسموں کا رزق دونوں پر بہم نازل ہوا…پھول اُترا شاخ پر اور مجھ پہ غم نازل ہوا۔ اپنے اپنے وقت پر دونوں ثمر آور ہوئے…پیڑ کو ٹہنی ملی، مجھ پر قلم نازل ہوا…؎ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی…مَیں بڑا تھا، مِری مشکل بھی بڑی ہونی تھی…اور کیا ہونا تھا دروازے سے باہر منصور…دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی۔؎کوئی چہرہ، کوئی مہتاب دکھائی دیتا…نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا…خواہشیں خالی گھڑے سَر پہ اُٹھا لائی ہیں…کوئی دریا، کوئی تالاب دکھائی دیتا…تو وہ ریشم کہ مِرا ٹاٹ کا معمولی بدن …تیرے پیوند سے کم خواب دکھائی دیتا۔؎ بال بکھرائے ہوئے درد کے خالی گھر میں…یاد کی سرد ہوا شام کو رویا نہ کرے…چاند کے حُسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور…میں اُسے کیسے کہوں، رات کو نکلا نہ کرے۔ ؎تیری خوشبوئے بدن کھینچ کے لایا نہ کرے…شام ہوتے ہی ہوا شور مچایا نہ کرے …ایک اُمید کی کھڑکی سی کُھلی رہتی ہے …اپنے کمرے کا کوئی بلب بجھایا نہ کرے…انگلیاں چاہتی ہیں چُھو کے بھی دیکھیں اُس کو…آنہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے…لوگ قسمت کی لکیریں بھی چُرا لیتے ہیں…یار محتاط رہے، ہاتھ ملایا نہ کرے…کیا بھروسا ہے کسی موجِ بلا کا منصور …ریت پہ بچّہ کوئی محل اُگایا نہ کرے۔ ؎تیرے دن جو مِری دہلیز پہ آنے لگ جائیں…ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں …پُل کی ریلنگ کو پکڑ رکھا ہے مَیں نے منصور…بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بُلانے لگ جائیں۔؎ ہم میں رہتا ہے کوئی شخص ہمارے جیسا …آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا…کشتیاں بیچ میں چلتی ہی نہیں ہیں منصور…اِک تعلق ہے کنارے سے کنارے جیسا۔