مسلم دنیا کی ایک امریکی پالیسی ہونی چاہئے؟

January 21, 2021

ایک کورونا دوسرا ٹرمپ۔سپر طاقت امریکہ کے قلعے اور محلات ریت کے گھر ثابت ہورہے ہیں۔صحت کا نظام کورونا کے سامنے زمیں بوس ہوگیا۔انتظامیہ۔ خفیہ ادارے۔ تھنک ٹینک۔ میرینز۔ نیشنل گارڈ۔ پینٹاگون کی ہیبت ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے ہتھیار ڈالتی رہی۔

مسلمان ملکوں کی مائیں اپنے جوان بیٹوں کے بم دھماکوں۔ اپنے ملکوں میں خانہ جنگیوں۔ عراق۔ لیبیا۔ شام میں نسلوں کی تباہی پر دعائیں مانگتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ امریکہ کو نیست و نابود کردے۔ دائیں بازو کے انتہا پرست یہ آرزو کرتے رہے کہ سوویت یونین کی طرح امریکہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے لیکن دعائوں کے ساتھ جو دوا کا اہتمام کرنا ہوتا ہے وہ مسلم ملکوں نے نہیں کیا۔ بلکہ ٹرمپ جیسا بظاہر مسخرہ نظر آنے والا مسلم ملکوں سے اسرائیل کو تسلیم کروانے میں مدبر اور دانشمند امریکی صدور سے آگے نکل گیا۔ متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کی مملکت کے سفارتی تعلقات قائم کروانا ایک تاریخ ساز کارروائی تھی۔ اس کے بعد مراکش۔ سوڈان ۔ بحرین اور نہ جانے کون کون سے اسلامی ممالک قطار میں کھڑے رہے۔ عمران خان کے مخالف رہنما تو پاکستان کو بھی اسرائیل تسلیم کروانے والے ملکوں میں شامل ہونے کا الزام لگارہے ہیں۔ ایک ایسی کوشش صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں بھی ہوئی تھی۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ آپ کی ساری جنگیں تو انڈیا سے ہوئی ہیں۔ انڈیا نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ لیکن آپ کے پاسپورٹ پر لکھا ہوتا ہے:All Countries of the World except Israel۔ہمیں یاد ہے کہ امریکی جوڈیشل کونسل نے نیو یارک میں 2005میں صدر جنرل پرویز مشرف کے اعزاز میں ایک پُر تکلف ڈنر کا اہتما م کیا تھا۔ میں نے بھی یہودیوں کا نمک کھایا تھا۔ اہل کتاب کے درمیان یگانگت کے حوالے سے تقریریں بھی ہوئیں لیکن چند دنوں بعد ہی پھر یہ نکتہ پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔

امریکہ میں نئے صدر کی حلف برداری پوری دنیا کے لئے ایک اہم اور نمایاں تاریخی موڑ ہوتا ہے۔ جب سے امریکہ دنیا کے نقشے پر ایک طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ چھوٹے ملکوں اور خاص طور پر مسلم ملکوں کے لئے تو یہ ایک عذاب بن کر طلوع ہوا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سوویت یونین ایک مقابلے کی طاقت بن کر سامنے آیا اور اس نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات ترقی پسند طاقتوں کو تقویت دینا شروع کی تو امریکہ نے کمیونزم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی اپنا ہدف بنانا شروع کردیا۔ 1974 کی نمائندہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں شریک قریباً تمام اہم شرکا کو باری باری سازشوں کے ذریعے قتل کروایا گیا۔ کیونکہ مسلم ملکوں کے اتحاد کو امریکہ اپنے خلاف ایک بلاک تصور کررہا تھا۔ اور یہ حقیقت بھی تھی۔ شاہ فیصل کی شہادت سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ صدر انور سادات۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ شیخ مجیب الرحمٰن۔ یاسر عرفات۔ معمر قذافی۔ سب کا جسمانی اور سیاسی طور پر خاتمہ کردیا گیا۔ سوویت یونین کی موجودگی میں مسلمان ممالک کو ایک سہارے کا احساس رہتا تھا۔ اس کا انہدام بھی مسلمان ملکوں اور لیڈروں کے ہاتھوں کروایا گیا۔ جب امریکہ کو ایسا کوئی چیلنج نہیں رہا تو اس نے مسلمان ملکوں میں ترقی پسند سوچ کے خاتمے کی مہم چلائی۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی ان کارروائیوں میں دائیں بازو کی مسلم جماعتوں اور تحریکوں نے بھرپور ساتھ دیا۔

کیا مسلمان بھول سکتے ہیں کہ عراق میں سات لاکھ سے زیادہ شہری اور فوجی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں ہلاک کیے گئے ۔ کیا یہ تعداد کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں کے لئے اندوہناک نہیں ہے؟ ان کو بھی ان کی مائوں نے بڑی آرزئوں سے جنا تھا۔ امریکہ مسلمان ملکوں کے عوام کو خود یہ فیصلہ کیوں نہیں کرنے دیتا کہ وہ اپنے نمائندے خود چنیں۔ افغانستان میں 1979 سے ہلاکتوں کا بازار گرم ہے۔ محتاط اعداد و شُمار کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ افغان شہری۔ فوجی اور جہادی ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ نہ جانے کتنے معذور۔ کتنی بیوائیں۔ یتیم۔ معاشرے کا حصّہ بن چکے ہیں۔ شام میں اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ خانہ جنگی میں یا امریکہ ،روس کے ہاتھوں مارے گئے۔ یمن میں بھی اب تک مائوں کی گودیں اجاڑی جارہی ہیں۔ لیبیا کے ہزاروں باشندوں کو بھی مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے۔ اب جب امریکہ ایک طرف کورونا اوردوسری طرف ٹرمپ کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جوبائیڈن نئے امریکی صدر اپنا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ اقتدار کی منتقلی پُر امن حالات میں نہیں ہوئی۔ انتہا پسند سفید فام نہ صرف اپنے سیاہ فام ہم وطنوں بلکہ امریکہ کے حقیقی باشندوں کے خلاف تلواریں سونتے اور مسلمانوں کے خلاف بندوقیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ مسلمان ملکوں میں بھی سی آئی اے کی سازشیں اسی طرح جاری ہیں۔ مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑوایا جارہا ہے۔ ٹرمپ کے مضحکہ خیز رویوں کے مقابلے میں ہمیں جوبائیڈن نسبتاً بہتر لگ رہے ہیں مگر ہیں تو وہ بھی امریکی مفادات کے نگہبان۔ ان کی کابینہ کافی متنوع ہے۔ سیاہ فاموں، جنوبی ایشیائیوں اور خاص طور پر بھارتی نژاد امریکیوں کو اعلیٰ عہدے دیے گئے ہیں۔ لیکن وہ بھی گورے امریکیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے متمنی ہوں گے۔

اس تاریخی اور جغرافیائی تناظر میں مسلمان ممالک کو جوبائیڈن کے سلسلے میں کیا پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں؟ اس وقت امریکہ پہلے اپنے داخلی معاملات کو درست کرے گا۔ اب اگرچہ وہ سپر طاقت نہیں ہے۔ لیکن اس کے ارادے وہی ہیں۔ سی آئی اے اسی طرح سرگرم ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں انتشار اب بھی اس کی ترجیح ہوگی۔ اب کمیونسٹ بلاک سامنے نہیں ہے۔ صرف اسلامی ممالک ہیں جن کے پاس دولت ہے۔ قدرتی وسائل ہیں۔ کیا ان کو متحد ہوکر ایک امریکی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے پہلے کہ امریکہ پھر مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کولڑوانے کی پوزیشن میں آئے۔ کیا مسلم سربراہوں کو سر جوڑ کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اپنے دینی شعائر کے تحفظ کے لئے۔ اپنی روایات کی پاسداری کے لئے۔ آئندہ نسلوں کو مایوسی اور ہلاکتوں سے بچانے کے لئے کیا اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ناگزیر نہیں ہے۔ امریکہ نے جب سارے اسلامی ملکوں کے خلاف ایک سا معاندانہ رویہ جاری رکھا ہوا ہے تو کیا مسلم ممالک کو بھی ایک امریکی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے؟