اپنے لہو کا ذائقہ

February 05, 2021

ایک زمانے میں اُردو کے معروف شاعر اثر صہبائی اور راقم الحروف لاہور کی ایک صاف ستھری بستی، سمن آباد میں رہتے تھے۔ شام کی سیر ڈونگی گراؤنڈ میں کرتے اور مجھے اُن کے اشعار سننے کا موقع مل جاتا۔ اُن کا ایک شعر حافظے میں آج بھی تازہ ہے ؎

اِس حُسنِ پاکباز کی آتی ہے اب بھی یاد

نورِ سحر کے ساتھ، کبھی چاندنی کے ساتھ

اُن دنوں اُن کا بڑا بیٹا سرمد گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ بلا کا ذہین اور فنونِ لطیفہ کا دلدادہ۔ اثر صہبائی کی بڑی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا سی ایس پی افسر بنے، مگر سرمد کے علمی اور ادبی مشاغل بڑے مختلف تھے۔ مَیں نے دو روز پہلے ایک معاصر اخبار میں سرمد صہبائی کی ایک ’غضب ناک‘ غزل کے چند اشعار پڑھے، تو پرانا زمانہ یاد آ گیا اور آج ہم جس پُراسرار عہد سے گزر رہے ہیں، اِس کا سراغ بھی مل گیا۔ ایک مدت سے ہم کولہو کے بیل کی طرح مسلسل چکر کاٹ رہے ہیں اور لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود کولہو کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر سخت جدوجہد کے بعد اِس مشقت سے رہائی مل بھی جائے، تو ہم ایک اور ناگہانی صورتِ حال میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ بقول حضرت غالبؔ؎

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو مَیں

ہماری تاریخ کا یہ المیہ بھی ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جب مسٹر بھٹو برسرِاقتدار آئے، تو ’نیا پاکستان‘ بنانے کا اعلان کیا۔ وہ ایک تجربےکار اور بیدار مغز سیاست دان تھے اور اُن کی ٹیم بھی قابل افراد پر مشتمل تھی، چنانچہ پاکستان جاں لیوا صدمہ بھی برداشت کر گیا اور ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کرتا رہا۔ مسٹر بھٹو تیسری دنیا کے لیڈر بن گئے۔ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ خادم الحرمین شریفین شاہ فیصل نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں تعلقات قائم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آگے چل کر مسٹر بھٹو کے مشورے پر اُنہوں نے تیل کو اسلحے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مغربی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ فلسطینی مسئلے پر اسرائیل چاروں طرف سے گھیرے میں آ گیا تھا۔ بھٹو صاحب اِن فتوحات پر آپے سے باہر ہو گئے اور اُن کے دماغ میں بیس پچیس سال تک اقتدار میں رہنے کا سودا سماگیا جو اُنہیں اپوزیشن کی زندگی حرام کرنے، پریس کا گلا گھونٹنے اور اِنتخابات میں منظم دھاندلی کی طرف لے گیا۔ اِس مہم جوئی میں وہ اِقتدار اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تاریخ نے اِک زقند لگائی اور ہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پہنچ گئے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے اور منتخب حکومت کے خلاف فوج کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اِس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں دو بار پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔ غالباً بعض طاقتوں کو یہ بندوبست پسند نہیں آیا۔ اُنہوں نے عدلیہ کے ذریعے وزیرِاعظم نوازشریف کو اقتدار سے محروم کر دیا اور انتخابات میں کھلی دھاندلی سے جناب عمران خان مسندِ اقتدار پر براجمان ہو گئے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے۔ قومی دھارے کی بڑی جماعتوں نے انتہائی قدم اٹھانے کے بجائے اِس بات پر اتفاق کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں۔ وہ تشکیل تو پا گئی، مگر حکومت نے اِسے تحقیقات ہی نہیں کرنے دی۔ وزیرِاعظم کے بارے میں حال ہی میں عامر سہیل نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے اِس امر کا بطور خاص اہتمام کیا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک ایسے زوال کا شکار ہو جائے کہ اِس میں کوئی ایسا کپتان ہی نہ آنے پائے جو 1992ء کی طرح ورلڈ کپ جیت سکے۔

ابھی ہم اِن انکشافات کی تہیں کھولنے ہی میں ہلکان ہو رہے تھے کہ برما میں فوجی بغاوت ہو گئی۔ برما کے دارالحکومت رنگون میں آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر مدفون ہیں۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اِس ملک پر فوج کا چالیس برس قبضہ رہا ہے۔ اِس جبر کا وہاں کی ایک جی دار خاتون آنگ سان سوچی نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔ جاں گسل کشمکش کے بعد فوج کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق پارلیمنٹ میں ایک چوتھائی نشستیں عسکری قیادت نامزد کرتی ہے اور وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ پر بھی اِسی کا کنٹرول ہے۔ برما اب میانمار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ آنگ سان سوچی، جسے اُس کی استقامت پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا اور اُس کا شمار جمہوریت کے عالمی قائدین میں ہوتا تھا، نے فوج کی مزید خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی کی ساری کمائی غارت کر دی۔ فوج نے برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے بدترین جرم کا ارتکاب کیا تھا اور جس کے خلاف عالمی عدالت ِانصاف میں مقدمہ دائر ہوا۔ سوچی نے اس عدالت میں پیش ہو کر فوج کی بےگناہی کی شہادت دی۔ اِس بزدلی اور کم ہمتی پر اُس سے نوبل پرائز واپس لے لیا گیا۔ اِس بدترین چاپلوسی کے باوجود فوج نے یکم فروری 2021ء کی صبح سوچی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ کمانڈر اِن چیف نے تمام اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ الزام یہ لگایا ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں جو انتخابات ہوئے، اُن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، مگر اصل جرم یہ ہے کہ این ایل ڈی نے غیرمعمولی کامیابی حاصل کر لی تھی۔ ہمارے وزیرِاعظم بھی ممنونِ احسان دکھائی دیتے ہیں اور اپنی بیشتر تقریروں اور اقدامات میں اِس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ میانمار جیسی آزمائش سے محفوظ رہیں۔ سرمد کے اشعار؎

لگ چکا ہے اب ہمیں اپنے لہو کا ذائقہ

شہرِ مردم خور میں مردہ غلط، زندہ غلط

چل رہے ہیں ہم نہ جانے کب سے یونہی بےخبر

اور ہے منزل غلط، راہبر غلط، رستہ غلط

جانے سرمدؔ کون لکھتا ہے کتابِ زندگی

خط غلط، انشا غلط، معنی غلط، املا غلط

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)