کشمیر کا جگر

February 07, 2021

اس کا اصل نام تو غلام احمد لنگو تھا لیکن ماں باپ پیار سے اسے جگر کہا کرتے تھے ، مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے قصبے میں وہ اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھا ، جگر کی عمر صرف سترہ برس تھی، وہ میٹرک کی کلاس میں زیر تعلیم تھا ،گھر میں معاشی آسودگی تھی لہٰذا زندگی گزارنے کی تمام سہو لتیں میسر تھیں ، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایک کشمیری تھا جسے ناانصافی برداشت ہوتی تھی نہ ہی ظلم اور یہ دونوں چیزیں مقبوضہ کشمیر میں عام تھیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی آبادی، جس میں ستانوے فیصد مسلمان تھے، پر غیر قانونی طور پر بھارت نے قبضہ کر رکھا تھا ، ہر روز مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانا عام سی بات تھی ، جگر کو بھی ہر روز بھارتی فوج اور مقامی پولیس تنگ کرتی ، اس کی تلاشی لی جاتی ، اسے اور اس کے دوستوں کو غدار قرار دیا جاتا ، اس کی ہنسی اڑائی جاتی ، لیکن وہ ہمیشہ خاموشی سے گھر واپس آجاتا اور والدین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کرتا ،جس پر ہمیشہ اس کے والدین اسے خاموشی اور درگزر کاسبق دیا کرتے ، لیکن اب وہ جوان ہوچکا تھا ،ظلم و زیادتی کا مطلب بھی سمجھنے لگا تھا ، اپنی مقبوضہ وادی پر بھارتی تسلط کی حقیقت کو بھی سمجھنے لگا تھا ، پھر اسے سوشل میڈیا پرکشمیر کےلئے جان قربان کرنے والے درجنوں کشمیری نوجوانوں کے حالات زندگی پڑھنے کو ملےکہ کس طرح بھارتی افواج نے ان کشمیری جوانوں کو شہید کیا ، جگر کی سوچ میں پیدا ہونے والی تبدیلی سے اس کے والدین بالکل لاعلم تھے انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹااس حد تک باغی ہوچکا ہے ، پھر ایک دن جگر گھر چھوڑ کر چلا گیا ،سترہ سال کی عمر میں جگر مقبوضہ کشمیر کے کسی حریت پسند گروہ کے ساتھ مل کر بھارتی افواج کے خلاف ہتھیار اٹھا چکا تھا ، اس نے اہل خانہ سے رابطہ منقطع کرلیا تھا لیکن کبھی کبھاراپنی خیریت سے بھی آگاہ کرتا رہتا تھا ،پھر ایک دن اس کے والدین کو بھارتی فوج نے طلب کیا ، بتایا کہ آپ کے لڑکے کو بھارتی فوج نے سری نگر میں ایک مقابلے میں گھیر لیا ہے اس کی عمر صرف انیس سال ہے لہٰذا اگر آپ اس کی زندگی چاہتے ہیں تو اسے زندہ نکال سکتے ہیں ورنہ اسے مقابلے میں مار دیا جائے گا ، والدین اس اطلاع کے فوراََ بعد بھارتی افواج کے ساتھ مقابلے کی جگہ روانہ ہوگئے ، جہاں ایک جگہ بڑی تعداد میں بھارتی فوج ، بکتر بند گاڑیاں اور جدید اسلحہ سے لیس کمانڈو زموجود تھے ، انہوں نے سری نگر کے ایک علاقے کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا ، کچھ دیر بعد جگر کے والد کو ایک موٹر سائیکل اور مائیک دیا گیا کہ آپ قریب جائیں اور اپنے بیٹے کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کریں ،جگر کی والدہ نے بھی جانے کی ضد کی لیکن اسے روک لیا گیا ، جگر کے والد موٹرسائیکل پر بیٹھ کر اس کی جانب بڑھے ،انہوں نے مائیک پر بیٹے سے ہتھیار ڈالنے کی درخواست کی ، ان کی آواز میں ایک درد، ایک کرب بھی شامل تھا ،وہ اپنے بیٹے کو یقین دلارہے تھے کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دے تو بھارتی فوج اسے کچھ نہیں کہے گی ، کافی دیر تک وہ مائیک کے ذریعے اپنے بیٹے سے درخواست کرتے رہے لیکن کوئی جواب نہ ملا ، والد کی التجا آنسوئوں میں ڈھل گئی تو ایک جواب آیا ، بابا آپ یہاں سے جائیں یہ دھوکے باز فوج ہے اس کی بات پربھروسہ نہیں ، بس اتنا سننا تھا کہ بھارتی فوج کو جگر کی پوزیشن معلوم ہوگئی اس نے فوراََ جگر کے والد کو واپس آنے کا حکم دیا ، اب ایک خطرناک آپریشن شروع ہوچکا تھا ، راکٹ ، فائرنگ ، دھماکے اور چند لمحوں بعد وہ علاقہ آگ کی لپیٹ میں آکر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا تھا ، بھارتی فوج نے جگر کے والدین کو استعمال کیا تھا تاکہ رش والے شہری علاقے میں جگر اور اس کے ساتھیوں کی پوزیشن تلاش کرسکے ، جگر کی والدہ کی آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں ، ان کے لعل کو شہید کردیا گیا تھا ،تکلیف اس بات کی زیادہ تھی کہ انھیں ہی اپنے بیٹے کو تلاش کرنے کےلئے استعمال کیا گیا تھا ، اب ان کا جگر ،کشمیر کا جگر صرف انیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا ،ایسے ہزاروں کشمیری جگر ہیں جنہیں بھارتی فوج شہید کرچکی ہے ، اس وقت کشمیر کی آزادی کی تحریک ایک مقامی تحریک بن چکی ہے ،نوجوان بھارتی ظلم و بربریت کا شکار ہوکر بھارت مخالف حریت پسند تنظیموں میں شامل ہورہے ہیں وہ وقت قریب ہے جب بھارت کو کشمیر کو آزدی دینا پڑے گی ،ابھی پانچ فروری کو کشمیر ڈے منایا گیا ہے ، مجھے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو انہوں نے بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے پاکستان کے دورے سے قبل کہے تھے کہ نہ آپ پاکستان سے آزاد کشمیر چھین سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا کشمیر پاکستان کو دے سکتے ہیں تو پھر کیوں نہ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے دونوں طرف کے کشمیریوں کو ملنے کے لئے سرحدوں میں آسانی پیدا کرکے ان کی زندگی آسان کردی جائے جس کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کے دورے کے بعد فاروق عبداللہ سے کہا انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے اس موضوع پر بات کی تھی تاہم انہوں نے جواب دیا تھا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا ، ہماری دعا ہے کہ ایسا وقت جلد آئے کہ کشمیری عوام کےلئے آسانی پیدا ہو اور روزانہ کشمیری جگر شہید ہونے سے بچ سکیں ،اس کا بہترین حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جو استصواب رائے کا آسان حل پیش کرتی ہیں ۔